پاکستان تاریخی طور پر ایک انتہائی مسابقتی ٹیلی کام مارکیٹ رہا ہے جس میں سیلولر موبائل آپریٹرز دنیا میں سب سے کم ٹیرف کے ساتھ قومی سطح پر ’ڈیجیٹل شمولیت‘ کو ممکن بنائے ہوئے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران فی صارف اوسطاً ماہانہ ڈیٹا کا استعمال 2 جی بی سے بڑھ کر 7 جی بی ہو گیا ہے پاکستان کے موبائل فون صارفین ماہانہ اوسطاً ’ایک ڈالر‘ خرچ کرتے ہیں جبکہ اِس سلسلے میں عالمی شرح 8 ڈالر ہے۔ امریکہ چھیالیس ڈالر‘ کینیڈا اکتالیس ڈالر اور بحرین 39 ڈالر کی اوسط رکھتے ہیں۔ اگر موبائل فون استعمال کرنے والے پاکستانی صارفین کا عالمی سطح پر موازنہ کیا جائے تو دنیا بھر میں کام کرنے والی ’269 ٹیلی کام کمپنیوں‘ میں پاکستان ’267ویں‘ نمبر پر ہے اُور جہاں صارفین کا رویہ محتاط ہو اور وہ سیلولر کمپنیوں کو خاطرخواہ منافع نہ دے رہے ہوں وہاں کے ٹیلی کام شعبے ترقی اور جدت فراہم کرنے میں سرمایہ کاری نہیں کرتے کیونکہ ایسی سرمایہ کاری کا اُنہیں خاطرخواہ منافع نہیں مل رہا ہوتا۔ پاکستان میں موبائل فون خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں ملک کی طرح مشکل حالات سے گزر رہی ہیں‘ جس کا اندازہ اُن کے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے بیانات (پریس ریلیزیز)‘ اُن کی سماجی کاموں میں عدم دلچسپی یا عدم شرکت اور توسیعی منصوبے شروع نہ کرنا ہے۔ پاکستان میں کم سے کم 2 موبائل کمپنیوں نے ’فائیو جی‘ کا تجربہ تو کیا ہے لیکن اِس کا تاحال آغاز (لانچ) نہیں ہوا۔ گزشتہ ماہ (اکتوبر دوہزاربائیس) میں وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ’جون 2023ء‘ میں ’فائیو جی سروسز‘ متعارف کروا دی جائیں گی لیکن اِس کے امکانات بھی بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں کیونکہ موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے خاطرخواہ دلچسپی اور سرمایہ کاری دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ اگر ’فائیو جی‘ کا آغاز کر بھی دیا گیا تو یہ سہولت کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے مخصوص حصوں میں رہنے والوں ہی کو میسر ہوگی۔ ذہن نشین رہے کہ قبل ازیں وفاقی حکومت نے فائیو جی ٹیکنالوجی کے آغاز کے لئے دسمبر 2022ء کی ڈیڈ لائن دی تھی تاہم اس ڈیڈ لائن پر نظر ثانی کرتے ہوئے پہلے مارچ 2023ء اور پھر جون 2023ء کر دیا گیا ہے۔ موبائل فون (سیلولر) کمپنیاں جن معاشی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں اُس کا بنیادی محرک صرف یہ نہیں کہ فی موبائل صارف عالمی اوسط سے کم خرچ کر رہا ہے بلکہ حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات‘ بجلی و گیس کی قیمتوں‘ شرح سود میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اِن کمپنیوں کے جاری (آپریٹنگ) اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ’ٹیلی کام صنعت‘ ایک قسم کے وجودی بحران کا شکار ہے۔ اِس بات کو اعدادوشمار سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے