ہار جیت کوئی بھی آخری نہیں ہوتی 

ان دنوں کئی محاذوں پر گہما گہمی دیکھنے کو مل رہی ہے، سیاسی محاذ تو خیر ہمہ وقت ایک ہنگامہ آرائی کی زد میں رہتا ہے لیکن سماجی محاذ پر بھی شادیوں کی رونقیں اپنی بہار دکھا رہی ہیں، شادی ہال میں ایک دو دن کا رونق میلہ ہو تا ہے مگرزندہ دلان پشاور شادی سے کئی ہفتہ پہلے سے گھروں میں ڈھولک رکھنے کی رسم سے شروع ہونے والے دھوم دھڑکے سے شادی کی تاریخ تک اپنی ہر شام کو مہکائے رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک اصل شادی یہی چند ہفتوں کی گپ شپ، ہنسی مذاق، گانے بجانے اور بے تکلف ہنگامے ہی ہوتے ہیں کیونکہ بارات اور ولیمہ کے لئے شادی ہال کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ہال میں ہونے والی رسومات بہت رسمی اور پر تکلف سی رہ گئی ہیں، اس لئے زمستاں کے شروع کے شب و روز خاصے ہنگامہ خیز گزرتے ہیں، یہی موسم کرکٹ کے لئے بھی بہت موزوں ہے اس لئے کھیلوں کا محاذ بھی دامن دل اپنی طرف کھینچتا ہے، جن خطوں میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے وہاں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں اس کھیل سے دلچسپی نہ ہو، کچھ لوگ سارا سال نہ سہی مگرکرکٹ کے عالمی میچوں کے موسم میں ضرور اس سے جڑ جاتے ہیں، کس کا کس سے جوڑ پڑ رہا ہے،کون کس سے جیت رہاہے کون کس سے ہار رہا ہے، یا پھر کس نے کس کو غیر متوقع شکست دے دی، کرکٹ کے رسیا کرکٹ کے جوتشی بھی ہوتے ہیں بہت کم ان کے اندازے غلط ثابت ہو تے ہیں، لیکن یہی بات ان کے لئے بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے جب ان کی توقعات کے برعکس کو ئی ٹیم ہارتی یا جیتتی ہے، کرکٹ میں بہت سے کھلاڑی بہت مقبول ہو جاتے ہیں یہ وہ کھلاڑی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی مسلسل محنت اور ریاضت سے بہت اچھا کھیل کر اپنے پرستاروں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا ہوتا ہے اس لئے لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور بہت سے عظیم کھلاڑیوں کو تو ”سر“ کے خطاب سے بھی نوازا گیا، کرکٹ کا آغاز برطانیہ سے ہوا ہے اور اسے متفقہ طور پر ”بھلے لوگوں کا کھیل“ قرار دیا گیا ہے اس لئے ہارنے والی ٹیم کے کھلاڑی میدان ہی میں جیتنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملا کر مبارکباد دیتے ہیں‘یہ ایک طرح سے اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ آپ اچھا کھیلے‘ یہیں سے ”کھلاڑیوں کے خیرسگالی کے جذبہ“ کو سراہنے کا سلسلہ بھی چلا ہے، لیکن بعد کے زمانوں میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ کوئی کوئی کھلاڑی اس بات کو بھول کر میدان ہی میں ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں مخالف ٹیم کے کھلاڑی سے الجھ پڑتا ہے اور تیز و تند جملوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے حتیٰ کہ امپائر کو بیچ میں پڑنا پڑ جاتا ہے اور کبھی کبھی تو بات جرمانے تک بھی جا پہنچتی ہے، کچھ کھلاڑیوں کو تو گراؤند میں بیٹھے بعض غیر ذمہ دار تماشائیوں کی بے جا ہلڑ بازی کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے، لیکن اس طرح کے واقعات بہت کم ہیں عموماً یہ شریفانہ کھیل دوستانہ ماحول میں کھیلا جاتا ہے اور لیجنڈری حیثیت کے حامل کھلاڑی جاوید میاں دادتو جب بھی بیٹنگ کے لئے جاتے تو بیٹ کے ساتھ ساتھ ان کی زبان بھی خوب چلتی مگر یہ محض مزاحیہ جملے ہوا کرتے جن کو مخالف ٹیم کے کھاڑی بہت انجوائے کرتے‘ دنیائے کرکٹ کے عظیم بیٹسمین اور اپنی شریف النفسی کیلئے بہت مشہور و مقبول سنیل گواسکر نے کچھ عرصہ پہلے انڈیا کے بہت ہی پاپولر کامیڈی شو ’کپل شرما شو“ میں ایک پاکستان اور انڈیا کے میچ میں جاوید میانداد کی بیٹنگ کا قصّہ سناتے ہوئے کہا کہ ان کو جو باولر بال کرا رہا تھا اس نے مجھ سے شکایتاً کہا کہ جاوید میاں داد ہر بال کھیلنے کے بعد مجھ سے پوچھتا ہے”آپ کا روم نمبر کیا ہے؟“ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں، میں سمجھ گیا تھا کہ جاوید کا یہی انداز ہے وہی کوئی بات شروع کرتا ہے تو اس کو کوئی اور نہیں خود وہی ختم کرتا ہے اس لئے میں نے مسکرا کر باؤلر سے کہا کہ پوچھ لو کہ کیوں؟ جب دونوں قریب ہوئے اور جاویدنے پھر پوچھا کہ ”آپ کاروم نمبر کیا ہے؟“ توباولر نے کہہ دیا ”کیوں“ تو جاوید میاں داد نے کہا ”آپ کی بال پر ہٹ لگا کربال کو آپ کے کمرے تک پہنچانا چاہتا ہوں“ یہ واقعہ سناتے ہوئے سنیل گواسکر خود بھی لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں، سنیل گواسکر مجھے یوں بھی یاد آئے کہ جب حالیہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سیریز میں جب پاکستان ٹیم کو سیمی فائنل کھیلنے کی دوڑ میں شامل رہنے کیلئے دوسری ٹیموں کی ہار جیت پر انحصار کرنا پڑا اور جسے کرکٹ کے پنڈت اس وجہ سے بیس سال پرانے ورلڈ کپ سے مشابہ قرار دے رہے تھے کیونکہ تب بھی پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک بھی پہنچنے کے لئے ا سی طرح کے اگر مگر میں پھنسی ہوئی تھی تو سنیل گواسکرسے جب ورلڈ کپ جتنے والی ٹیم کا پوچھا گیا تو انہوں نے برجستہ پاکستان کا نام لیا تھاانہیں بتایا گیا کہ ابھی تو اس کا سیمی فائنل تک پہنچنا بھی مشکوک ہے، فائنل کیسے جیت سکتی ہے تو گواسکر نے کہا تھا  میرا دل کہتا ہے کہ وہ جیت جائے گی اور پھر ایسا ہی ہوا‘کرکٹ کے میدان میں پاکستان کے سب سے بڑی حریف ٹیم کے سابقہ کپتان کا یہ جذبہ بہت سراہا گیا تھا بلکہ دوستوں کو یاد ہو گا کہ جب ضیاء الحق کے زمانے میں انڈین کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو میچ والے دن پاکستان ٹیلی ویژن پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ایک بیمار معصوم بچی کیلئے خون کے عطیہ کی اپیل کی گئی تھی، جسے دیکھ کر انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان اور معروف سپن باولر بشن سنگھ بیدی چپکے سے خون دینے ہسپتال جا پہنچے تھے، جب پہچانے گئے تو اس کا چرچا اخبارات میں ہوا اور غالباً اسی کار خیر اور خیر سگالی کے جذبہ کی پذیرائی کے طور پرصدر پاکستان ضیا ء الحق نے بشن سنگھ بیدی کو ایوان صدر میں بلا کر قالین کا ایک تحفہ بھی دیا تھا‘ ان دنوں بھی انڈیا اورپاکستان کے مابین ہونے والے کرکٹ میچ تماشائیوں کے لئے ایک بڑا جذباتی مسئلہ بن جاتا ہے لیکن دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے مابین اب بھی گپ شپ،ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ کے کلپس اور تصویری جھلکیاں آئے دن وائرل ہو تی رہتی ہیں  اوراگر ہمارے ہاں سنیل گواسکر سے لیکرسچن ٹنڈولکر بلکہ ویرات کوہلی تک کے فین موجود ہیں تو ادھر بھی عمران خان،جاوید میاں داد، وسیم اکرم اور شعیب اختر کی طرح کے بڑے کھلاڑیوں کے چاہنے والوں کی کمی نہیں بلکہ وسیم اکرم اور شعیب اختر تو ان کے ہاں کے میگا ریالٹی شوز میں بھی بہت محبت اور احترام سے بلائے جاتے ہیں، مانو یہ کرکٹ کا ہی جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے، کیونکہ بہر حال یہ جنٹلمین گیم ہے اور اسے اسی جذبہ سے لینا چاہئے، دو دن بعد ٹی ٹونٹی کا فائنل ہے اب کے مد مقابل روایتی حریف انڈیا کے نہ ہونے کی وجہ سے میچ میں یار لوگوں کی دلچسپی کا لیول وہ نہیں ہے جو اتنے بڑے لیول کے میچ کا ہو نا چاہئے‘ اب نتیجہ جو بھی ہو لیکن کرکٹ کا یہ محاذ خاصا ہنگامہ خیز ہے‘ ہار جیت تو بہر حال کھیل کا ہی حصہ ہے  ہستی مل نے ٹھیک کہا ہے۔
 کھیل زندگی کے تم کھیلتے رہو یارو
 ہار جیت کوئی بھی آخری نہیں ہوتی