پشاور کہانی: روڈ سیفٹی


صوبائی دارالحکومت میں ’ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں‘ اِس قدر عام ہیں کہ اب اگر کوئی قواعد پر عملدرآمد کرے تو سب اُسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں دوسری اہم بات ’سٹی ٹریفک پولیس‘ کی حسب آبادی (ضرورت) افرادی و تکنیکی اور مالی وسائل میں کمی آڑے آ رہی ہے جسکی وجہ سے قواعد پر عملدرآمد کی کوششیں خاطرخواہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہیں اور ٹریفک جرائم سے متعلق مرتب کردہ اعدادوشمار سے ظاہر ہے کہ اِس سلسلے میں کی جانیوالی کوششیں ادھورے پن کے باعث بھی ناکام ہو رہی ہیں سب سے پہلے گزشتہ ماہ (اکتوبر 2022ء) میں ٹریفک جرائم کی تفصیلات پر نظر ڈالتے ہیں جو ٹریفک پولیس نے مرتب کی ہیں اور پشاور سٹی ٹریفک پولیس کے مطابق ایک ماہ (اکتوبر دوہزاربائیس) کے دوران پشاور میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالے 68 ہزار افراد کو جرمانے کئے گئے‘ ٹریفک جرائم کے یہ اعدادوشمار ٹریفک پولیس کی کارکردگی کا بھی بیان ہیں لیکن کیا پشاور شہر میں صرف 68 ہزار ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں ہوئیں؟ ٹریفک پولیس کے فیصلہ سازوں کے پاس اِس سوال کا جواب افرادی و تکنیکی اور مالی وسائل کی کمی ہے جبکہ عوام میں ٹریفک قواعد کے بارے آگاہی پیدا کرنیکی مہمات بھی سارا سال جاری رہتی ہیں مذکورہ ’آگاہی مہم‘ کے بعد قوانین کے نفاذ کیلئے جرمانے اور دیگر تعزیری اقدامات کئے جاتے ہیں اور اِس سلسلے میں جاری کوششوں پر پشاور کے ’چیف ٹریفک آفیسر (عباس مجید مروت)‘ قواعد پر عمل درآمد کیلئے ٹریفک اہلکاروں کی کوششوں سے مطمئن ہیں جنہوں نے ہدایت کر رکھی ہے کہ پشاور میں ٹریفک کی روانی یقینی بنانے اور شہریوں میں ’روڈ سیفٹی‘ سے متعلق شعور اجاگر کرنے کیلئے پہلے سے زیادہ کوششیں (محنت) کی جائیں اِس سے قبل سال 2022ء کے پہلے ’6 ماہ‘ میں ٹریفک قواعد سے متعلق بھی اعدادوشمار پیش کئے گئے جن سے معلوم ہوا تھا کہ پشاور میں جنوری سے جون کے درمیان (چھ ماہ کے عرصے میں) ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر 2 لاکھ 97 ہزار 913 افراد کیخلاف مختلف کاروائیاں کی گئیں‘ لائق توجہ بات یہ ہے کہ سال دوہزاربائیس کے پہلے چھ ماہ کے دوران پشاور میں ہر ماہ اوسطاً 49 ہزار 652 ٹریفک جرائم کے مرتکب افراد کیخلاف کاروائی ہوئی جبکہ اکتوبر دوہزاربائیس میں 68 ہزار افراد کو جرمانے کئے گئے‘ جب ہم اِس قدر جرمانوں کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اِسکا مطلب پشاور کی ٹریفک پولیس کو ماہانہ ایک کروڑ روپے سے زائد آمدنی ہو رہی ہے‘ بنیادی سوال یہ ہے کہ رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ میں جرمانوں سے وصول ہونیوالی رقم (6 کروڑ‘ 93 لاکھ‘ 42 ہزار 100 روپے) کا مصرف کیا رہا اور ماہانہ اوسطاً ایک کروڑ روپے سے زائد آمدنی کہاں خرچ کی جاتی ہے؟ پشاور کی ٹریفک پولیس کو صرف جرمانوں ہی سے آمدنی نہیں ہوتی بلکہ جنوری دوہزاربائیس سے جون دوہزاربائیس کے دوران 15 ہزار سے زائد افراد نے ڈرائیونگ ٹیسٹ دیا‘ جن میں کامیابی کا تناسب اگرچہ 36فیصد رہا لیکن اِس ڈرائیونگ ٹیسٹ اور لائسنس کے اجرأ سے بھی محکمے کو آمدنی ہو رہی ہے‘ لمحہئ فکریہ ہے کہ ”حکومتی اِدارے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ’بطور سہولت کار‘ بنائے جاتے ہیں لیکن اُن کا مقصد جرمانوں کی صورت زیادہ سے زیادہ منافع جمع کرنے کی حد تک محدود دکھائی دے رہا ہے اور اِس بات کا صوبائی حکومت کو نوٹس لینا چاہئے‘ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی پر جرمانہ اُس وقت ہونا چاہئے جبکہ سائن بورڈز‘ ٹریفک سگنلز (لائٹس) اور سڑکوں پر ٹریفک کے نشانات ’پینٹ‘ کئے گئے ہوں‘ اگر ٹریفک پولیس کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے تو ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا سکتا ہے جسکے تحت ’کیمروں‘ کی مدد سے ’اُوور سپیڈنگ‘ و دیگر جرائم کا قلع قمع ممکن ہے‘ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ خراب صورتحال اندرون شہر (فصیل شہر کی حدود میں) دیکھنے میں آتی ہے جہاں ایک طرف تجاوزات کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر رہتی ہے تو دوسری طرف ٹریفک سگنلز اور ’یک طرفہ (ون وے) راہداریوں کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے چند منٹ کی مسافت طے کرنے میں بھی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔