عالمی طاقتوں کے رویے میں تضاد

 عالمی وسائل پر نظر رکھنے والی ایک این جی او ورلڈ ریسوس سینٹر کے مطابق  اب تک گلوبل میتھین کے عہد کے 119 دستخط کنندگان میں سے صرف 15 نے میتھین کے اخراج میں ممکنہ کمی لانے سے متعلق اپنے اہداف ظاہر کئے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے ممالک نے میتھین کے اخراج میں کمی کے لیے معاہدے پرابھی تک دستخط ہی نہیں کر رکھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک میں اگر حکومتیں اس زہریلی گیس کے اخراج میں کمی میں دلچسپی رکھتی ہیں تو وہاں کمپنیاں اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔امریکہ میں تیل کی صنعت نے میتھین کے ضوابط کے خلاف لابنگ کی ہے اور اپنے کلین ایئر ایکٹ کے تحت میتھین کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے ملک کی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے قانونی اختیار کو چیلنج کیا ہے۔یورپ میں تیل اور گیس کی کمپنیوں نے درآمدی ایندھن کو نظر انداز کرنے کے لیے میتھین کے ضوابط پر زور دیا ہے، حالانکہ یہ 2021 میں یورپی یونین کی گیس کی کھپت کا کم از کم 80 فیصد حصہ ہیں۔COP26 میں 130 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کے اثاثوں کو کنٹرول کرنے والے سینکڑوں بینکوں اور انشورنس کمپنیوں نے کہا تھا کہ وہ کرہ ارض کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ گرم ہونے سے بچانے کے لیے رقم فراہم کریں گے۔لیکن اس بارے میں  اتحاد متزلزل ہے۔ اس اتحاد کے کچھ ارکان نے استعفی دے دیا ہے اور زیادہ تر اب بھی کوئلہ، تیل اور گیس نکالنے کے منصوبوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ایک برطانوی این جی او کی رپورٹ کے مطابق  نیٹ-زیرو بینکنگ الائنس کے 43 سب سے بڑے ارکان میں سے زیادہ تر کے اہداف ''ماحولیاتی اثرات کے بدترین بحران کو روکنے کے لیے مطلوبہ معیار سیکم ہیں۔صرف سات بینکوں نے 2030  تک مضر اخراج کو کم کرنے کے لیے بڑے اہداف مقرر کیے ہیں۔
COP26 میں 140 سے زائد ممالک نے 2030 تک جنگلات کی کٹائی اور زمینی انحطاط کو روکنے کے لیے وعدہ کیا تھا۔لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم 'فارسٹ ڈیکلریشن اسیسمنٹ کی اکتوبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ''حوصلہ افزا علامات کے باوجود ایک بھی عالمی اشاریہ 2030 کے ان اہداف کو پورا کرنے کے راستے پر نہیں ہے۔  رپورٹ کے مطابق  جنگلات کی حفاظت کے ہدف تک پہنچنے کے لیے جنگلات کی کٹائی کی شرح میں ہر سال 10 فیصد کمی کرنا ہو گی۔ اس میں گزشتہ سال کے دوران صرف 6 فیصد کمی آئی ہے۔ یعنی اس وقت ماحولیاتی ایجنڈے پر عمل درآمد سست اور ماحول دوست سرگرمیوں پر تیز ہے جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک جو موسمیاتی تبدیلی میں نہ ہونے کے برابر کردار کے حامل ہیں وہاں پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات زیادہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔