انوکھا حل


 صوبوں کے تحفظات اور والدین و طلبہ کے اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے داخلے کے امتحان میں کامیابی کے لئے کم سے کم حاصل ہونے والی نمبروں کا تناسب میں کمی کرتے ہوئے صرف ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کے لئے ایم ڈی کیٹ پاس کرنے کا تناسب 65فیصد سے کم کر کے 55فیصد کر دیا ہے تاہم سندھ کا مطالبہ میڈیکل و ڈینٹل کے لئے یہ معیار پچاس فیصد کرنا ہے۔ دوسری طرف صارفین یعنی والدین اور طلبہ کا مطالبہ ہے کہ بورڈ امتحانات کے بعد کوئی دوسرا امتحان نہیں ہونا چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ ’پی ایم سی‘ کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی کی زیر صدارت حالیہ کونسل اجلاس میں ’نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ‘ کی سفارشات پر مضامین کے ’ایم ڈی سی اے ٹی‘ کے نصاب میں بھی تبدیلیاں کی ہیں اور گاؤٹ کے موضوع کو ’ایم ڈی کیٹ‘ نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ’اکیڈمک بورڈ‘ کی سفارشات صوبائی اعلیٰ ثانوی بورڈز کی تجاویز کی روشنی میں کی گئی ہیں جبکہ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ نصاب قومی نصاب کے ساتھ صوبائی نصاب کے مطابق ہے اور اس میں نصاب کے علاوہ موضوعات شامل نہیں کئے جائیں گے۔ بعض صوبائی بورڈز نے حیاتیات کے بعض موضوعات کو ہٹانے کی تجویز دی تھی حالانکہ وہ ہائر سیکنڈری کے نصاب میں موجود ہیں اور اِسی وجہ سے اکیڈمک بورڈ نے یہ تجویز مسترد کی کیونکہ یہ وہ موضوعات ہیں جو ڈینٹل اور میڈیکل کالج میں داخلہ لینے والے طالب علم کے بنیادی مطالعے کا اہم جز ہیں۔ ’ایم ڈی کیٹ‘ نصاب کے متعلقہ مضامین میں حیاتیات سے متعلق سوالات بتیس سے چونتیس فیصد‘ فزکس اور کیمسٹری کے مضامین سے متعلق سوالات ساڑھے چھبیس سے ستائیس فیصد‘ انگریزی زبان سے متعلق سوالات کا تناسب نو سے دس فیصد اور طلبہ کی ذہانت جانچنے کے لئے ’منطقی استدلال‘ کو تین سے پانچ فیصد کی سطح پر رکھا گیا ہے۔ آئندہ میڈیکل اور ڈینٹل کالج کا داخلہ ٹیسٹ طے شدہ فیصد کی بنیاد پر کل 210سوالات پر مشتمل ہوگا۔پاکستان میں اس وقت  72 نجی (پرائیویٹ) اور 42 سرکاری (پبلک سیکٹر) میڈیکل کالجز ہیں جبکہ ڈینٹل کے شعبے میں 42 پرائیویٹ اور 17پبلک سیکٹر کے تعلیمی ادارے سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ طب کی تعلیم کو معیاری  بنانے پر توجہ دی جائے اور اِس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے جبکہ فوری حل کے طور پر موجودہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں ’سکینڈ شفٹ‘ شروع کر کے سرکاری میڈیکل کالجوں کی تعداد باآسانی 84 کی جا سکتی ہے جس سے سرکاری کالجوں کا پلڑا 72 نجی میڈیکل کالجوں کے مقابلے بھاری ہو جائے گا اور طب کی تعلیم کی فیصلہ سازی میں سرکاری میڈیکل کالجوں کی تجاویز‘ آرأ اور طلبہ کے مفادات کا زیادہ بہتر انداز میں تحفظ ممکن ہو جائے گا۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے ڈینٹل کی تعلیم کے لئے ’ایم ڈی کیٹ‘ کی اہلیت کے معیار کو کم کیا ہے جو اس شعبے کو دی گئی ماضی میں ملنے والی کم ترجیح کی نشاندہی کرتی ہے جبکہ ضرورت ڈینٹل کالجز کی تعداد میں اضافے کی ہے۔ ایک عام صارف (طلبہ اور والدین) کے نکتہئ نظر سے اِس صورتحال کو دیکھا جائے تو ایک عرصے سے اِس بات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں طب کے جملہ شعبوں میں تعلیم کے اخراجات بیرون ملک تعلیم کے مساوی یا اُس سے کم ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں داخلے سے محروم رہ جانے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک (بالخصوص وسط ایشیائی ممالک) کا رخ کرتی ہے جہاں امریکی ڈالروں میں فیسیں ادا کرنے کی وجہ سے ملک سے قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے۔ ڈالروں کے اِس اخراج کو روکنے کے لئے خاطرخواہ سوچ بچار اور عملی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ فیڈرل ہیلتھ اتھارٹیز نے حال ہی میں ڈینٹل اداروں میں داخلے کے لئے میڈیکل اور ڈینٹل کالج کے داخلہ ٹیسٹ کے معیار کو جس انداز سے کم کیا ہے بالکل اِسی طرح میڈیکل میں داخلوں کے لئے داخلہ ٹیسٹ میں کامیابی کا پیمانہ بھی نظرثانی کا متقاضی ہے۔ فیصلہ سازوں کو اِس بارے میں بھی سوچنا چاہئے کہ ’ایم ڈی کیٹ رجسٹریشن فیس‘ مقرر کر کے صرف وہی فیس ناقابل واپسی ہونی چاہئے۔ علاوہ ازیں طب کی تعلیم کا معیار برقرار رکھنے کے لئے نصاب میں ہونے والی وقتاً فوقتاً تبدیلیوں سے بھی گریز کرنا چاہئے اور اِس سلسلے میں نصاب کو بنیادی اور جزوی حصوں میں تقسیم کرکے ایک کو مستقل اور دوسرے کو غیرمستقل کیا جا سکتا ہے۔ غیرمستقل نصابی حصہ ’سیلف ڈائریکٹر لرننگ (SDL)‘ پر مشتمل ہونا چاہئے جو پہلے ہی نصاب کے موڈیولر سسٹم کا حصہ ہے لیکن اِسے خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ ڈینٹل کی تعلیم کے موجودہ 4 سالہ پروگرام (نصاب) میں ’دانتوں کی خصوصیات‘ کے مضمون کو شامل کر کے اِسے ’ایم بی بی ایس‘ کے مساوی یعنی 5 سال تک ’اپ گریڈ‘ کر دینا جانا چاہئے۔ بالکل اُسی طرح جیسا کہ دیگر متعلقہ صحت کی دیکھ بھال کے پیشوں میں ہوتا ہے جیسا کہ فارمیسی‘ فزیوتھراپی اور نرسنگ کے پانچ سالہ تدریسی پروگرام ہیں لیکن ڈینٹل ایجوکیشن کو کم اہمیت دیتے ہوئے اِسے 4 سال تک محدود رکھا گیا ہے۔ فیصلہ سازوں کو اِس بارے میں سوچنا چاہئے کہ پاکستان سے ڈینٹل کی 4 سالہ تعلیم مکمل کرنے والوں کو بیرون کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں ڈینٹل کی تعلیم 5 سال پر محیط ہے اور پاکستان کے ڈینٹل گریجویٹس کو چار سالہ ڈگریوں کی وجہ سے چند ممالک میں جلد دوبارہ امتحانات دینے پڑتے ہیں اور وہاں پاکستان کی تعلیم کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ میڈیکل و طب کی تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں کو اُس عالمی معیار کے مطابق قواعد و ضوابط اور نصاب تشکیل دینا چاہئے جس سے پاکستان کی افرادی قوت کو بیرون ملک مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے یقینا اگر ڈینٹل کی تعلیم کا پانچ سالہ پروگرام شروع کیا جائے تو اِس سے ہمارے میڈیکل گریجویٹس کی طبی مہارت بہتر ہوگی۔ یہ عالمی معیار کے مطابق ہوگی اور ورلڈ فیڈریشن فار میڈیکل ایجوکیشن اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستان کا ’مثبت تعلیمی امیج‘ ابھر کر سامنے آئیگا۔