ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کرکٹ کے حتمی (فائنل) مقابلے میں برطانیہ نے پاکستان کے خلاف ایک ایسی کامیابی حاصل کی جو ایک سے زیادہ مواقعوں پر غیریقینی دکھائی دے رہی تھی اور اِس کی بنیادی وجہ پاکستان کے باؤلرز کی نپی تلی باؤلنگ تھی‘ جس نے کامیابی کے متعدد امکانات پیدا کئے لیکن اُن سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا کیونکہ کرکٹ میں جیت یا شکست کا دارومدار ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر ہوتا ہے اور کسی ایک کھلاڑی کی محنت اور تجربہ کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر پاکستان کی 2 نمایاں کامیابیاں ’باؤلرز‘ کے حصے میں آئی ہیں جن کا ذکر کرنے سے پہلے ’تیرہ نومبر‘ کے فائنل مقابلے پر ایک نگاہ ڈال لی جائے جسے برطانوی بیٹسمینوں (بین اسٹوکس اور سیم کرن) نے پلٹ دیا اور یوں پاکستان کو پانچ وکٹوں سے شکست ہوئی جبکہ ابھی مقابلے کی چھ گینیدیں باقی تھیں! اِس کامیابی کے ساتھ برطانیہ ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے ساتھ 50 اور 20 اوورز کے کھیل فارمیٹس بھی اپنے نام کرتے ہوئے اس کھیل کا پہلا ”ڈوئل وائٹ بال چیمپئن“ بن گیا ہے جو تاریخی اعزاز ہے اور اِس کی اعزاز تک پہنچنے کے لئے برطانیہ نے کرکٹ کھیلنے کے اپنے جس روایتی انداز میں تبدیلی کی ہے اُس کا مطالعہ اپنی جگہ ضروری ہے۔ آسٹریلیا کے ’میلبورن کرکٹ گراؤنڈ‘ میں موجود 80 ہزار 462 جبکہ ٹیلی ویژن سکرینوں پر کروڑوں کرکٹ شائقین کی اکثریت کو اُس وقت مایوسی ہوئی جب پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اپنی باری میں صرف ’137 رنز‘ بنائے۔ اِس سکور میں ’شان مسعود کے 38رنز نمایاں تھے تاہم پاکستان کی اوپنرز سے جڑی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ برطانیہ نے ٹاس جیتنے سے فائنل مقابلے کا آغاز کیا تو پاکستان کی خوش قسمتی رہی کہ اوپنر رضوان ایک خطرناک سنگل لیتے ہوئے رن آؤٹ ہونے سے بال بال بچے۔ رضوان اور بابر اعظم نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے سیمی فائنل میں سنچری پارٹنرشپ کی تھی لیکن اِس مرتبہ رضوان محض پندرہ کے سکور پر سٹمپ ہو گئے جو پاکستان کے لئے بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ چھ اوور کے پاور پلے کے فوراً بعد حارث نے آسان کیچ دے کر ثابت کر دیا کہ پاکستان کے بیٹسمین اپنی پوری توجہ سے نہیں کھیل رہے بلکہ ’کنفیوز‘ ہیں جبکہ مقابلے سے قبل کپتان بابر اعظم نے کہا تھا کہ وہ ’کنفیوز‘ نہیں ہیں اور پوری طرح مقابلے کے لئے تیار ہیں۔ انگلش تجزیہ کاروں اور صحافیوں کی جانب سے پاکستان کے ’کنفیوز‘ ہونے کا جو شوشا چھوڑا گیا تھا‘ وہ کارگر رہا اور ٹیم گرین تمام تر تجربے اور جوش و جذبے کے بھی ڈھیر ہو گئی لیکن اِس کے باوجود 2 قابل ذکر کامیابیاں پاکستان کے نام ہیں۔پہلی کامیابی: شاداب خان (لیگ اسپنر) نے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ مقابلوں میں 98 وکٹیں حاصل کیں‘ اِس طرح وہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کھلاڑی بن گئے اور اُنہوں نے شاہد آفریدی کا ریکارڈ توڑنے کے بعد ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ میلبورن میں برطانیہ کے خلاف برطانیہ کے ہیری بروک کو آؤٹ کرنے کے بعد شاداب نے آفریدی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ میگا ٹورنامنٹ کے فائنل میں ایک اہم وکٹ حاصل کرنے کے بعد‘ شاداب کو ٹیم کے لئے ”ایلیٹ باؤلر“ کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔ انہوں نے آفریدی کی 97 وکٹوں کے ریکارڈ کو بہتر بنایا ہے اور ایڈیلیڈ اوول میں بنگلہ دیش کے ساتھ گرین شرٹس کے تصادم کے دوران مشترکہ طور پر سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر بھی رہے۔ چوبیس سالہ شاداب نے مجموعی طور پر 82 میچ کھیلنے کے بعد اپنی 97ویں وکٹ حاصل کی اور یہ وکٹیں 84 میچوں میں حاصل کی گئی ہیں۔ شاداب کا یہ ریکارڈ اِس لئے بھی بہتر ہے کیونکہ شاہد آفریدی نے 85 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز 98 میچز میں اپنے نام کیا تھا۔ پاکستان کے ایک اُور باؤلر عمر گل جنہوں نے 85 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں‘ عالمی مقابلوں میں پاکستان کے تیسرے نمایاں کھلاڑی ہیں۔ چوتھے نمبر پر سعید اجمل ہیں جنہوں نے بھی اپنے ٹی ٹوئنٹی کیریئر کے دوران 85 وکٹیں ہی حاصل کی ہیں اُور حارث رؤف 70 وکٹوں کے ساتھ پانچویں پوزیشن پر ہیں۔دوسری کامیابی: ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کے اختتام پر پاکستان کے حصے میں آنے والی دوسری نمایاں کامیابی پاکستان کے سٹار فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی ہیں جنہوں نے برطانیہ کے خلاف ’ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022ء‘ کے فائنل مقابلے کے دوران گھٹنے کی انجری کے باوجود اپنی بہترین کارکردگی دکھائی اور اِس پر اُنہیں شائقین کرکٹ کی جانب سے زبردست داد وصول ہوئی اور ’آن لائن تعریفوں‘ کا تسلسل جاری ہے۔ شاہین آفریدی کو برطانیہ کے خلاف ”بلاک بسٹر فائٹ“ کے دوران گھٹنے میں تکلیف کے باعث میدان سے باہر جانا پڑا۔ انہوں نے ہیری بروک کا شاندار کیچ لے کر مڈل آرڈر بلے باز کو پویلین واپس بھیج دیا کیونکہ وہ کیچ پکڑتے ہوئے اپنے پورے جسم کے وزن کو دائیں گھٹنے پر برداشت کر بیٹھے اور گھٹنے کے بل اُن کے گرنے سے میچ کا پلڑا کچھ وقت کے لئے پاکستان کے حق میں تو ہوگیا لیکن شاہین آفریدی پھر باؤلنگ نہیں کروا سکے۔ اس تیز گیند باز نے پہلے ہی اوور میں برطانیہ کے اوپنر ’ایلکس ہیلز‘ کو آؤٹ کر کے پاکستان کو ابتدائی کامیابی دلائی تھی جبکہ سولہویں اوور کی پہلی گیند پھینکنے کے لئے آتے ہوئے شاہین آفریدی کی چال اور چہرے سے شدید درد عیاں تھا حتیٰ کہ اُنہیں چلنے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی اور قدم اُٹھانا محال ہو رہا تھا۔ شائقین نے دیکھا کہ وہ تکلیف برداشت کرتے ہوئے آہستہ آہستہ قدموں سے میدان سے باہر چلے گئے اور ان کی جگہ خوشدل شاہ میدان میں آئے۔ فوری اطلاعات کے مطابق شاہین آفریدی جو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل 50فیصد ’فٹ‘ بتائے گئے تھے اب میڈیکل پینل اُن کا علاج کر رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اِس حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”شاہین شاہ آفریدی اپنے دائیں گھٹنے پر گرے جس کی وجہ سے پہلے سے موجود زخم تازہ ہو گیا اور اب میڈیکل پینل اُن کا علاج کر رہا ہے اور اُن کی صحت یابی سے متعلق مناسب وقت پر مزید کوئی اپ ڈیٹ فراہم کی جائے گی۔“سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس (بالخصوص ٹوئیٹر صارفین) شاہین آفریدی کے ذکر سے بھری پڑی ہیں جہاں شائقین کرکٹ کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ ’فٹنس مسائل‘ کے باوجود پاکستان کے لئے اپنے پسینے اور خون کا ایک ایک قطرہ دینے پر شاہین شاہ آفریدی کی خدمات اور جذبے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اگر پاکستان کے دیگر کھلاڑی بھی (مبینہ طور پر) شاہین آفریدی کی طرح جذبے سے کھیلتے تو یقینا ’فائنل میچ‘ کا نتیجہ پاکستان کے حق میں اور یکسر مختلف ہوتا۔