جن لوگوں کو دنیا کے بلند ترین قدرتی سٹیڈیم شندور میں ہر سال سجنے والا پولو میلہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے انہیں شندور کے نزدیک ترین گاؤں ہرچین لاسپور میں مشہور مہمان نواز شخصیت گل ولی خان المعروف بابائے لاسپور کی مہمان نوازی کا لطف اٹھانے کا موقع ضرورملا ہوگا۔بابائے لاسپور نے کچھ عرصہ قبل داعی اجل کو لبیک کہہ دیا مگر ان کے خاندان میں مہمان نوازی کی روایت ہنوز برقرار ہے۔بابائے لاسپور کے فرزند ارجمند امیر اللہ خان یفتالی نے نہ صرف اپنے خاندان کی روایت کو برقرار رکھا بلکہ قومی خدمت کا اپنا الگ معیار قائم کیا۔اگر یہ کہا جائے کہ یفتالی اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن ہیں۔وہ سیاسی شخصیت،سماجی کارکن، تاریخ دان، پولو کے بہترین کھلاڑی اور چترال کی تہذیب و تمدن، روایات، اقدار، زبان اور ثقافت کے زندہ امین ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔۔ انہوں نے اپنی رہائش گاہ کے ساتھ ایک عجائب گھر بھی قائم کیا ہے جو خیبر پختونخوا میں نجی شعبے میں قائم ہونے والا پہلا عجائب گھر ہے جہاں انہوں نے صدیوں سے اس خطے میں استعمال ہونے والی اشیا ء کو محفوظ کیا ہے ان نادر اور نایاب اشیاء کو جمع کرنے میں انہیں کئی سال لگے۔ انہوں نے چترال اور گلگت بلتستان کے چپے چپے میں انہیں تلاش کیا اور اصلی حالت میں لاکر عجائب گھر کی زینت بنایا۔ اس عجائب گھر میں قدیم زمانے کا سامان حرب بھی موجود ہے۔ نایاب و نادر دستکاریاں بھی ہیں۔ کئی سو سال پہلے اس خطے کے لوگوں کے پہناوے بھی ہیں۔ پولو سے متعلق تمام سامان بھی موجود ہے اور موسیقی کے تمام آلات بھی اس عجائب گھر میں پائے جاتے ہیں۔امیراللہ یفتالی مصالحتی کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔وہ مختلف اقوام اور افراد کے درمیان تنازعات کو بھی ثالثی کے ذریعے پر امن طور پر حل کراچکے ہیں۔وہ مختلف اخبارات و جرائد میں علاقے کے مسائل بھی اُجاگر کرتے رہے ہیں۔ان کے سینے میں قوم کا درد رکھنے والا دل ہے۔بڑوں کا احترام اور بچوں سے پیار کرنا ان کو وراثت میں ملا ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں پورے چترال اور گلگت بلتستان میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کرنے، اپنی تہذیب و ثقافت سے پیار کرنے والی انہی شخصیات کی بدولت ہی چترال کی تہذیب و ثقافت زندہ ہے۔تمغہ حسن کارکردگی امیراللہ خان یفتالی جیسی شخصیات کے سینے پر سجتا ہے۔قومی ایوارڈ کے لئے نامزدگی کرنے والوں کو ایسی نابغہ روزگار شخصیات کی ان کی زندگی میں قدر کرنی چاہئے۔