اِس سے بڑھ کر بدقسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 2 ممالک میں ہو رہا ہے جہاں ’انسداد ِپولیو‘ کی ”زیادہ کوششیں‘ زیادہ ناکامی“ کی صورت ظاہر ہو رہی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ایشیا کے علاوہ دنیا کے تمام براعظموں سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان صرف دو ایسے ممالک ہیں جہاں یہ بیماری اب بھی موجود ہے اور اِس کی بنیادی وجہ پولیو سے بچاؤ (حفاظت) کی ادویات اور ٹیکہ جات پروگرام کی مخالفت پائی جاتی ہے اور انسداد پولیو کے خلاف کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ اِسی بنا پر گزشتہ کئی برسوں کی بین الاقوامی سطح پر کوششوں کے باوجود‘ پاکستان کو پولیو سے پاک ملک کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ پولیو کے پھیلاؤ پر بین الاقوامی صحت کے ضوابط کی ہنگامی کمیٹی کے ساتھ عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ او)کے ڈائریکٹر جنرل کی صدارت میں ہوئے آخری اجلاس میں پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جس میں انسداد پولیو کو درپیش کلیدی چیلنج سامنے آئے۔ ان چیلنجوں میں سیکورٹی کے پیچیدہ حالات‘ کمیونٹیز کی جانب سے مزاحمت‘ انسداد پولیو ویکسینیٹروں میں خواتین عملے کی کمی اور معمول کے حفاظتی ٹیکوں اور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کے بنیادی ڈھانچے کی خرابیاں شامل ہیں۔ جون دوہزاربائیس سے اکتوبر دوہزاربائیس تک خیبر پختونخوا سے بارہ وائلڈ پولیووائرس کیسز رپورٹ ہوئے جس نے اضافی خدشات کو جنم دیا ہے۔ مزید برآں حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انسداد پولیو کے کارکنوں کی رسائی اور سیلاب متاثرین بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانا کسی بھی طرح آسان نہیں‘ اگرچہ پولیو کے کیسز میں ہر سال کمی آ رہی ہیں لیکن اِس بیماری کا خاتمہ نہیں ہورہا۔ سال دوہزاراُنیس میں 147 پولیو متاثرین بچے سامنے آئے تھے جن کی تعداد سال دوہزاربیس میں کم ہو کر 84‘ سال دوہزاراکیس میں صفر لیکن جاری سال (دوہزاربائیس) میں اب تک پولیو کے 20کیسز سامنے آ چکے ہیں‘ جس نے اب تک جملہ کاوشوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ہر سال عہد کیا جاتا ہے کہ رواں برس پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کا سال ہوگا لیکن ہر سال ہی کہیں نہ کہیں سے پولیو کے کیسز سامنے آنا
شروع ہو جاتے ہیں‘ پاکستان میں ہر قومی حفاظتی مہم کے دوران چار کروڑ (چالیس
ملین) سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور تقریباً 2 لاکھ 85 ہزار ہیلتھ ورکرز اس سرگرمی میں شریک ہوتے ہیں لیکن ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلائے بغیر بچوں کی اُنگلیوں پر جعلی نشانات لگا دیئے گئے ہوں‘ بغیر کسی وجہ کے پولیو کے حفاظتی ٹیکوں سے انکار کیا گیا ہو اور کسی علاقے میں ویکسینیشن کا بائیکاٹ کر دیا گیا ہو۔ عمومی طور پر پولیو کے خلاف پائی جانے والی سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ’پولیو امیونائزیشن پروگرام‘ غیر ملکی سازش ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کی مدد سے جسمانی مدافعت بڑھائی جاتی ہے جس کی وجہ سے پولیو جرثومہ بچوں کو پوری زندگی کے لئے معذور نہیں کرتا۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پولیو ویکسین میں حرام موادکی آمیزش ہوتی ہے۔ ایسی بہت سی غلط فہمیاں جلتی پر تیل ڈال رہی ہیں۔ پولیو کے خاتمے کے لئے صوبائی اور وفاقی سطح پر کچھ قابل ذکر اقدامات بھی ہوئے ہیں جیسا کہ انسداد پولیو کے لئے کمیونٹی اور مذہبی رہنماؤں کو مہمات میں شریک کیا گیا ہے اور بچوں کی حفظان صحت اور حفاظتی ٹیکوں کیلئے والدین یا نگہبانوں کی تعلیم و آگاہی کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے وضاحتی پیغامات کی تشہیر کی گئی ہے۔ ’ستائیس جنوری دوہزاربائیس‘ کے روز پاکستان میں پولیو کا کوئی نیا کیس سامنے نہ آنے کا ایک سال مکمل ہوا۔ رکاوٹوں کے باوجود پولیو ورکرز نے محکمہئ صحت کے کارکنوں کے ہمراہ ناقابل یقین عزم و جذبے سے کام کیا اور یہی وجہ رہی کہ پاکستان میں پولیو کیسز بڑی
حد تک کم ہو گئے ہیں لیکن پولیو وائرس کے چند کیسز سامنے آنے (حالیہ اضافے) سے یہ تمام کوششوں ناکام ہو گئی ہیں۔ پولیو کے انسداد کی عالمی حکمت ِعملی پاکستان میں کارگر ثابت نہیں ہو رہی‘ جس کے حل بین الاقوامی ماہرین سے مشورے کے تناظر اور اجازت میں وضع کئے جاتے ہیں اور اب تک کے نتائج میں یہ حربہ بھی خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو سکا ہے‘ بنیاد بات یہ ہے کہ انسداد پولیو کی قومی مہمات کو مقامی مہمات میں تبدیل کرنا ہو گا جس میں کوائف اور عملے کی جانب سے آن لائن ’فیڈ بیک‘ جمع کرنے کے ذریعے پولیو مہمات کی نگرانی کی جانی چاہئے۔ پولیو سے پاک پاکستان کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے مختلف حکمت عملی اپنانا ہوگی‘ پولیو ویکسینیٹروں بالخصوص لیڈی ہیلتھ ورکرز کی حفاظت اور حفاظتی ٹیکوں کیلئے دور دراز علاقوں تک رسائی یقینی بنانے کیلئے حکومت کے افرادی و تکنیکی وسائل مرکوز کرنا ایک ایسی ضرورت ہے جسے کسی عالمی دباؤ کے تناظر میں نہیں بلکہ پاکستان کی اپنی ضرورت کے زاویئے سے دیکھا جانا چاہئے۔ پولیو عملے کی تعداد (افرادی قوت) میں اضافہ کئے بغیر‘ گھر گھر انسداد مہمات‘ کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ علاوہ ازیں صوبائی سیکورٹی حکام کو انسداد پولیو مہم کی نگرانی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آگے آتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں میں حفاظتی ٹیکوں کے فرنٹ لائن کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے‘ پولیو سے بچاؤ کے قطرے جن بچوں کو (کسی بھی وجہ سے) نہیں پلائے جا سکے اُن کے کوائف پر نظر رکھتے ہوئے وقتاً فوقتاً کوشش جاری رکھنی چاہئے تاکہ ویکسینیشن یقینی بنائی جا سکے۔ قبائلی علاقوں کا بندوبستی علاقوں میں ضم ہونے کے بعد‘ انسداد پولیو کی کامیابی کے بارے میں جن اُمیدوں اور توقعات کا ذکر کیا گیا تھا وہ پوری نہیں ہو سکی ہیں کیونکہ قبائلی اضلاع میں اب بھی پولیو قطروں سے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دور کرنا وہاں پر تعینات ضلعی انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہونا چاہئے۔ قبائلی عمائدین اور مقامی سطح پر فعال سماجی کارکنوں کو انسداد پولیو مہمات میں شریک ِسفر کرنے سے انسداد ِپولیو کے خاطرخواہ نتائج (مقاصد) باآسانی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔