8 ارب آبادی: مشترکہ ذمہ داری

پندرہ نومبر دوہزاربائیس: اقوام متحدہ نے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے خبر دی کہ منیلا (فلپائن) میں پیدا ہونے والی ایک بچی (جسے ’وینائس مباسنگ Vinice Mabansang‘ کا نام دیا گیا) کی پیدائش کے ساتھ دنیا کی آبادی ’آٹھ ارب‘ ہو چکی ہے۔ اِس خبر کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ایک ارب افراد کا اضافہ صرف ’11 برس‘ میں ہوا ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سال 2080ء کی دہائی میں عالمی آبادی دس ارب سے تجاوز کر جائے گی جبکہ عالمی آبادی پر نگاہ رکھنے والے دیگر غیرحکومتی اداروں کا خیال ہے کہ ایسا جلد یعنی 2060ء یا زیادہ سے زیادہ 2070ء کی دہائیوں کے درمیان ہو جائے گا۔ اِس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے ایک بیان میں کہا کہ ”آبادی 8 ارب تک پہنچنے کا سنگ میل کرہئ ارض کے لئے انسانیت کی مشترکہ ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے تنوع اور ترقی کا جشن منانے کا موقع ہے۔“ اقوام متحدہ آبادی کے اِس تناسب کو ’انسانی ترقی‘ کے طور پر دیکھ رہا ہے کیونکہ آٹھ ارب آبادی کا حصول اِس وجہ سے بھی ممکن ہوا ہے کہ آج دنیا کی آبادی کو صحت عامہ‘ غذائیت‘ ذاتی حفظان صحت اور علاج معالجے (بیمار ہونے کی صورت ادویات) تک رسائی حاصل ہے جس کی بدولت لوگ طویل عمر پا رہے ہیں جبکہ آبادی بڑھنے کا یہ تناسب ’اعلی شرح پیدائش‘ کا نتیجہ بھی ہے خاص طور پر دنیا کے غریب ترین ممالک میں‘ جن میں سے زیادہ تر براعظم (سب صحارا) افریقہ میں ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے غریب ممالک کے ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا جبکہ آبادی میں اِس اضافے نے اقتصادی ترقی کے ماحولیاتی اثرات (خطرات) کو بھی پہلے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ کرہئ ارض پر انسانوں کی آبادی کے بارے میں اظہار اطمینان کے ساتھ فکر مندی بھی سامنے آئی ہے کہ ’آٹھ ارب انسان فی الوقت زمین پر موجود وسائل کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں کیونکہ وسائل چند ممالک اور لوگوں تک محدود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی
 ادارے ’پاپولیشن فنڈ‘ کا کہنا ہے کہ ”کچھ لوگ اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ دنیا کی آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے لیکن اِس حقیقت کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ انسانی جانوں کو اب خوف نہیں رہا۔“ بنیادی سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ زمین کے قدرتی اور انسانی علم سے وجود میں آئے وسائل کل کتنے لوگوں کے لئے کافی قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ آج کا انسان اپنی ضرورت سے زیادہ دنیا کے وسائل جیسا کہ حیاتیاتی وسائل (جنگلات اور زمین) کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ وسائل دنیا کی تخلیق کے وقت موجود کل وسائل کا سوفیصد ہیں۔ اِسی طرح انسان ایسا ایندھن بھی استعمال کرتے ہیں جو ماحول دوست نہیں ہوتا اور جب ہم زیادہ آبادی کی بات کرتے ہیں تو اِس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوگا جو ’عالمی درجہئ حرارت (گلوبل وارمنگ)‘ میں اضافے کا بنیادی محرک (ذمہ دار) ہے۔ آٹھ ارب آبادی تک پہنچتے ہوئے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ انسانوں نے ثابت کیا ہے کہ اِنہیں اپنی ضرورت سے زیادہ وسائل‘ جگہ اور سرمائے کی ضرورت ہے۔ اِس کی لالچ کو قرار نہیں۔اُنیس سو پچاس میں دنیا کی آبادی ڈھائی ارب تھی۔ اُنیس سو ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں دنیا کی آبادی میں اضافے کی بجائے کمی دیکھنے میں آئی اور اِس کے بعد سے اقوام متحدہ شرح پیدائش میں کمی کے لئے ’بہبود آبادی‘ کے عنوان
 سے منصوبوں کی سرپرستی کر رہا ہے تاہم آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح روکنے کی جملہ کوششیں ناکام (ناکافی) ثابت ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کا حالیہ تخمینہ یہ ہے کہ عالمی آبادی 2030ء میں تقریباً ساڑھے آٹھ ارب‘ سال 2050ء میں 9.7 ارب اور سال 2080ء کی دہائی میں تقریباً 10.4 ارب تک پہنچ جائے گی۔ آبادی بڑھنے کے اِس عالمی تناسب کی ایک وجہ ’فی ایکڑ زرعی پیداوار‘ میں اضافے (زرعی تحقیق) کو بھی قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خوراک ذخیرہ کرنے اور خوراک کو مختلف صورتوں میں محفوظ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی ہے اور اب نہ تو کوئی بیماری اُور نہ ہی بھوک دنیا میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا باعث بن سکتی ہے۔ آٹھ ارب تک پہنچنے میں انسانی آبادی نے کئی بیماریاں‘ آفات اور عالمی جنگیں دیکھی ہیں لیکن ہر ایسی مشکل کا حل ’مشترکہ ذمہ داری کا احساس‘ کرنے کی وجہ سے تلاش کر لیا گیا۔ یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں ترقی یافتہ ممالک کو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں زرعی تحقیق و ترقی اور زرعی تحفظ کی کوشش کا حصہ بننا چاہئے۔عالمی آبادی آٹھ ارب تک پہنچنے کے موقع پر ’اقوام متحدہ‘ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) نے پاکستان کی آبادی سے متعلق بھی اعدادوشمار جاری کئے ہیں جن کے مطابق پاکستان میں موجودہ آبادی سالانہ اوسطاً 1.9فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کا شمار اُن آٹھ ممالک میں کیا گیا ہے جہاں ’سال دوہزارپچاس‘ تک عالمی آبادی میں نصف سے زیادہ اضافہ ہو گا۔ تیزی سے آبادی بڑھنے والے ایسے دیگر ممالک میں کانگو‘ مصر‘ ایتھوپیا‘ بھارت‘ نائجیریا‘ فلپائن اور تنزانیہ شامل ہیں۔ ’یو این ایف پی اے‘ کے مطابق ’سال دوہزارگیارہ‘ میں دنیا کی آبادی سات ارب تھی جو بڑھ کر آٹھ ارب ہو چکی ہے اور اِس آبادی کا نصف ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں آباد ہے‘ جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ خوردنی اور ترقیاتی وسائل کم جبکہ مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔