امریکہ اور مغربی ممالک چین کی روز افزوں ترقی اور دنیا میں بڑھتے اثر رسوخ سے خائف ہیں اوراس وقت دنیا کے کئی خطوں میں یہ ممالک آمنے سامنے ہیں۔ امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک میں برطانیہ اور کینیڈا سرفہرست ہیں۔ جہاں برطانیہ کے امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تائیوان اپنے سرکاری وفود بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھاہے وہاں کینیڈا نے چین پر انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کی ہے جس کے بعد سے چین اور کینیڈا میں سفارتی کشیدگی کا ماحول ہے۔گزشتہ دنوں اس کی ایک جھلک جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر بھی نظر آئی جہاں چینی صدر اپنے مزاج کے برخلاف کینیڈا کے وزیر اعظم کو سرعام جھاڑ پلائی‘صدر شی جن پنگ نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو پر باہمی ملاقات کی تفصیلات کو لیک کرنے کا الزام لگایا۔چینی صدر شی جن پنگ نے بالی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی اس بات کے لیے سرزنش کی کہ انہوں نے دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے درمیان ہونے والی بات چیت کو میڈیا میں کیوں لیک کر دیا۔چینی رہنما کا اس طرح کا سخت لہجہ یا برتا ؤبہت ہی غیر معمولی بات ہے کیونکہ میڈیا میں ان کی شبیہ بہت زیادہ قابو میں رہنے والے اور ایک بہت ہی سنجیدہ اور نرم خو رہنما کی ہے۔تاہم کینیڈا کی میڈیا کے ذریعے نشر کی جانے والی اور سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ ٹروڈو پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے سابقہ ملاقات کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کر دیں اور ایسا کرنے میں وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان کئی امور پر کافی دنوں سے کشیدگی بڑھتی رہی ہے اور اس ماحول میں اس طرح کا واقعہ تناؤ کی نوعیت کو بیان کرتا ہے۔ اس سے قبل کینیڈا کے حکام نے پبلک یوٹیلیٹی فرم ہائیڈرو کیوبیک کے ایک ملازم کو گرفتار کیا تھا اور اس پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر تجارتی راز چرانے اور انہیں چین بھیجنے کی کوشش کر رہا تھا۔جی 20 کے سربراہی اجلاس کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان تکرارسے متعلق ویڈیو میں شی جن پنگ اور ٹروڈو کو ایک دوسرے کے پاس کھڑا دیکھا جا سکتا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک مترجم بھی نظر آ رہا ہے۔اس میں چین صدر اپنی زبان میں کچھ کہتے ہیں‘ جس کا مترجم ترجمہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے جس چیز پر تبادلہ خیال کیا وہ اخبارات میں لیک ہو گئی، یہ تو مناسب بات نہیں ہے۔ اور یہ اس طرح سے ہے بھی نہیں... جس طرح سے بات چیت کی گئی تھی، اگر آپ اس بارے میں مخلص ہیں تو۔اس پر مسکرانے اور سر ہلانے کے بعد جسٹن ٹروڈو نے مترجم کو درمیان میں روکتے ہوئے کہا کہ ہم کینیڈا میں آزادانہ، شفاف اور کھلے دل سے مکالمے پر یقین رکھتے ہیں اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ ہم مل کر تعمیری کام کرنا جاری رکھیں گے، تاہم ایسی چیزیں بھی ہوں گی، جن پر ہم میں اختلافات بھی ہوں گے۔اس پر چینی صدر نے رخصت لینے سے پہلے ٹروڈو کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے ترجمان کے ذریعے جواب دیا کہ آئیے پہلے اس طرح کے حالات پیدا کریں۔کینیڈا نے چینی صدر اور ٹروڈو کے درمیان ہونے والی ملاقات سے متعلق کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا تھا۔ یہ ملاقات بالی میں تقریبا 10 منٹ تک جاری رہی تھی۔ چین کی وزارت خارجہ اور سرکاری میڈیا نے بھی اس غیر رسمی بات چیت سے متعلق کوئی بھی بیان شائع کرنے سے گریز کیا۔تاہم بعد میں جسٹن ٹروڈو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس حوالے سے کہا کہ ہر بات چیت ہمیشہ آسان نہیں ہوتی ہے، تاہم انتہائی اہم یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کے لیے کھڑے رہیں جو کینیڈینز کے لیے اہم ہیں۔کینیڈا کے ایک سرکاری اہلکار نے بعد میں بتایا کہ باہمی ملاقات میں یوکرین پر روسی حملہ، شمالی کوریا اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات گفتگو میں شامل تھے۔