بقائے اِنسانی

ترقی یافتہ ممالک کی تعریف و تعارف یہ بھی ہے کہ اِن کی معیشت مستحکم ہوتی ہے۔ ایسے ہی معاشی استحکام رکھنے والے ممالک پر مشتمل ’جی ٹوئنٹی‘ نامی تنظیم کے حالیہ سربراہی اجلاس‘ جو کہ انڈونیشیا میں منعقد ہوا‘ کی خاص بات ترک صدر رجب طیب اردگان کی سربراہی میں یوکرین‘ روس‘ ترکی اور اقوام متحدہ کے درمیان طے پانے والے یوکرینی اناج کی برآمد سے متعلق معاہدہ رہا‘ جس کا ذکر اجلاس کے اختتام پر اعلامیے بھی کیا گیا ہے۔ جی ٹوئنٹی اجلاس میں شامل رہنماؤں کا اِس بات پر اتفاق رہا کہ ترکی اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والے ’استنبول معاہدے‘ کا خیر مقدم کیا جائے اور فریقین کا معاہدے پر مکمل طور پر‘ بروقت اور مستقل بنیادوں پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ پاکستان بذریعہ ترکی نہ صرف سفارتی و عالمی اثرورسوخ بلکہ مذکورہ معاہدے سے بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 26 ستمبر 1999ء (23 سال قبل) قائم ہونے والے ’جی ٹوئنٹی (گروپ آف ٹوئنٹی)‘ میں 19 ممالک (ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ برازیل‘ کینیڈا‘ چین‘ فرانس‘ جرمنی‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ اٹلی‘ جاپان‘ جمہوریہ کوریا‘ میکسیکو‘ روس‘ سعودی عرب‘ جنوبی افریقہ‘ ترکی‘ برطانیہ‘ ریاستہائے متحدہ امریکہ) اور ’یورپی یونین (EU) نامی تنظیم کے 26 رکن ممالک (آسٹریا‘ بیلجیئم‘ جمہوریہ چیک‘ ڈنمارک‘ ایسٹونیا‘ فن لینڈ‘ فرانس‘ جرمنی‘ یونان‘ ہنگری‘ آئس لینڈ‘ اٹلی‘ لٹویا‘ لیچٹنسٹائن‘ لتھوانیا‘ لکسمبرگ‘ مالٹا‘ نیدرلینڈز‘ ناروے‘ پولینڈ‘ پرتگال‘ سلوواکیہ‘ سلووینیا‘ اسپا‘ سویڈن اور سوئٹزرلینڈ) شامل ہیں۔ ’جی ٹوئنٹی‘ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں جوہری اسلحے کے استعمال کے ناقابل قبول ہونے پر زور دیتے ہوئے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ”تنازعات کا پر امن طریقے سے سد باب کرنا اہمیت کا حامل ہے‘ موجودہ دور جنگوں کا دور نہیں ہونا چاہئے۔“ لیکن ظاہر ہے کہ دنیا میں جنگیں وہی ممالک برپا کئے ہوئے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اُن کے پاس آمدنی کے وسائل اُن کی ضروریات سے زیادہ ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس امریکہ کے محکمہئ دفاع نے مختلف جنگی مہمات پر (جسے وہ اپنا دفاع قرار دیتے ہیں) 778 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی اور امریکہ ہر سال اپنے اِن مبینہ دفاعی اخراجات پر 3 فیصد سے زائد کے تناسب سے اضافہ کر رہا ہے‘ جو سال 1960ء سے جاری رجحان ہے۔ ویژیول کیپٹلسٹ ڈاٹ کام (visualcapitalist.com) نامی ویب سائٹ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”سال 2021ء کے دوران دنیا کے 10 ممالک نے مجموعی طور پر 2 کھرب (2.1 ٹریلین) امریکی ڈالر زائد رقم اپنے دفاعی اخراجات پر خرچ کی۔ اِن ممالک میں دفاعی اخراجات کے لحاظ سے بالترتیب امریکہ (801 ارب ڈالر)‘ چین (293 ارب ڈالر)‘ بھارت (76 ارب ڈالر)‘ برطانیہ (68 ارب ڈالر)‘ روس (66 ارب ڈالر)‘ فرانس (56 ارب ڈالر)‘ جرمنی (56 ارب ڈالر)‘ سعودی عرب (56 ارب ڈالر)‘ جاپان (54 ارب ڈالر) اُور جنوبی کوریا (50 ارب ڈالر) شامل ہیں۔“ تصور کیا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ دفاع پر توجہ دینے والے ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے جو کہ مذکورہ 10 ممالک کے کل دفاعی اخراجات کا قریب 38فیصد (37.9) جدید سے جدید ترین اسلحے (حربی وسائل) پر خرچ کر رہا ہے جبکہ امریکہ اِس دفاعی بجٹ کے علاوہ بھی اپنا سیاسی‘ سفارتی و معاشی اثرورسوخ بڑھانے کے لئے اخراجات کرتا ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں دنیا کو ’امن کا بھاشن‘ دینے والوں کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے اور دنیا کے دیگر سبھی ممالک کو مذکورہ 10 ممالک سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنے وسائل انسانیت کی بہبود اور کرہئ ارض پر انسانوں کا مستقبل محفوظ بنانے پر خرچ کریں تو یہ زیادہ دانشمندانہ اقدام ہوگا۔عالمی منظرنامے کے اِس سرسری جائزے میں ’عوامی جمہوریہ چین‘ کا مؤقف خاص اہمیت کا حامل ہے‘ جو عالمی تعمیروترقی اور تعاون کا فروغ چاہتا ہے۔ حالیہ جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے دوران ’ڈیجیٹل معیشت‘ کے عنوان سے ہوئی ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ”ڈیجیٹل معیشت عالمی اقتصادی ڈھانچے کا اہم عنصر (ناگزیر ضرورت) بن چکی ہے اور چین گلوبل ڈیجیٹل اقتصادی ڈھانچہ تشکیل دینے کے لئے تیار ہے۔“ اگرچہ حالیہ چند برسوں کے دوران ’جی ٹوئنٹی‘ کے دیگر رکن ممالک چین کی جانب سے ’ڈیجیٹل معیشت‘ کے تصور سے اتفاق رکھتے ہیں اور اِس سلسلے میں کچھ نہ کچھ تعاون بھی ہو رہا ہے جس میں مختلف فریق ڈیجیٹل تعاون کر رہے ہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ’ڈیجیٹل‘ ہو یا ’روایتی معیشت‘ اِس کے ثمرات اگر عام آدمی (ہم عوام) تک نہیں پہنچتے اور کسی بھی دوسرے معاشی ڈھانچے کی طرح اِس معاشی تصور سے بھی اگر وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہوتی ہے اگر ’امیر ممالک زیادہ امیر‘ اور ’غریب ممالک زیادہ غریب‘ ہوتے ہیں تو اِس ’ڈیجیٹل معیشت‘ کے تصور سے بھی زیادہ کچھ ’حاصل وصول‘ ہونے کی اُمیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔ چین کی جانب سے کثیرالجہتی معاشی تعاون پر ثابت قدمی سے جمے رہنے اور عالمی سطح پر مضبوط معاشی تعاون‘ ڈیجیٹل خلا دور کرنے اور اس حوالے سے اختراعات کے فروغ کے لئے جو بھی تجاویز پیش کی گئیں ہیں وہ پاکستان جیسے ممالک کی جدوجہد کرتی معیشتوں  کے حق میں بالکل نہیں ہیں۔حالیہ ’جی ٹوئنٹی‘ اجلاس میں ایک عالمی پیغام بھی دیا گیا ہے اور اِس میں ’عالمی غذائی تحفظ‘ سے متعلق صورتحال پر ”گہری تشویش“ کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ سال 2022ء کی حقیقت یہ ہے کہ ”دنیا بھر میں قریب ”82 کروڑ 80 لاکھ (828ملین) انسان“ ہر رات بھوکے سوتے ہیں! دنیا کو شدید ”غذائی عدم تحفظ“ کا سامنا ہے اور اِس غذائی عدم تحفظ کا شکار انسانوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ بھی ہو رہا ہے جس سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’ورلڈ فوڈ پروگرام (wfp.org)‘ کے مرتب اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2019ء میں ’شدید غذائی عدم تحفظ‘ سے متاثرہ افراد کی تعداد ساڑھے 13 کروڑ (135ملین) سے بڑھ کر ساڑھے 34 کروڑ ہو چکی ہے۔