داخلی سلامتی: امن کی دعا

خیبرپختونخوا کے بعض حصوں بشمول سابقہ قبائلی علاقوں میں ایک مرتبہ پھر عسکریت پسندی سر اُٹھا رہی ہے بالخصوص ان علاقوں میں جہاں قانون نافذ کرنیوالوں اور مقامی افراد نے اپنی جانی و مالی (بے مثل و بے مثال) قربانیوں سے امن و امان بحال کیا تھا اور اِن علاقوں کی معیشت و معاشرت نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے ابھی اپنی بحالی کا عمل بھی مکمل نہیں کیا کہ ماضی کے ناپسندیدہ واقعات پھر سے دہرائے جانے لگے ہیں‘حالیہ دہشت گرد کاروائیوں کے دوران عسکریت پسندوں کے الگ الگ حملوں میں چھ پولیس اہلکاراور پاک افغان سرحد کے قریب ایک فوجی جوان شہید ہوا ہے عوام کیلئے یہ صدمہ اور ریاست کیلئے یہ ناقابل تلافی نقصانات کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہونے چاہئیں تشویش کا باعث یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حملہ آوروں نے جدید ترین خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جبکہ حملے اِس قدر اچانک و منظم اور بڑے پیمانے پر تھے کہ سکیورٹی اہلکاروں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ مل سکا چونکہ مذکورہ گوریلا حملے پہاڑی علاقوں میں ہوئے ہیں‘ اسلئے حملہ آور فرار ہونے میں بھی کامیاب رہے ملک میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے سدباب کیلئے ”جامع حکمت عملی“ کی ضرورت ہے یہ اب خاص طور پر اہم ہو گیا ہے کیونکہ عسکریت پسندوں کا اجتماع اور ملک میں خوف و دہشت پھیلانے کیلئے پے در پے حملوں سے اُنکے عزائم واضح ہو چکے ہیں تحریک طالبان پاکستان ملک میں دوبارہ منظم اور فعال ہو رہی ہے‘ چاہے یہ اس اعتماد کی وجہ سے ہوا ہے کہ سرحد کے اُس پار  انکے فطری اتحادی ہیں یا غیر محفوظ سرحدی صورتحال کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اوراِس صورتحال میں افغانستان حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین اور وسائل کسی بھی ملک بشمول و بالخصوص پاکستان کیخلاف استعمال کرنیوالوں کیخلاف سخت کاروائی کرے‘پاکستان کی داخلی سلامتی یقینی بنانے کیلئے وقت ہے کہ کثیر جہتی منصوبے کے ذریعے خطے میں پائیدار امن اور ہم آہنگی کویقینی بنایا جائے جس طرح سے پاکستان دہشت گردی سے نمٹ رہا ہے اِس حکمت عملی پر نظر ثانی ہونی چاہئے کیونکہ دشمن کے کارگر وار اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اُس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے اور پاکستان کی داخلی سلامتی سے متعلق حکمت عملی میں موجود کمی بیشی  سے فائدہ اُٹھا رہا ہے‘ پاکستان کو اپنی پولیس فورس کیلئے دستیاب افرادی‘ تربیتی اور تکنیکی وسائل میں اضافہ کرتے ہوئے بالخصوص تربیت کا بھی از سر نو جائزہ لینا چاہئے اور یہ ایک انتہائی اہم ضرورت ہے اِس صورتحال میں خفیہ اداروں کی کارکردگی سب سے زیادہ اہم ہے‘ جنہیں زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے حملوں کی منصوبہ بندی اور اِن کیلئے وسائل‘ سرمایہ اورسہولت کاری فراہم کرنیوالے ’درپردہ کرداروں‘ تک پہنچنا چاہئے حالیہ مہینوں میں جس طرح سے ’ٹی ٹی پی‘ نے اہداف کو نشانہ بنایا ہے اور جس انداز میں حملہ آور ہوئی ہے اُس کیلئے منصوبہ بندی کی گہرائی بھی نظر میں رہنی چاہئے بالخصوص افغانستان کیساتھ متصل پاکستان کے سرحدی علاقوں کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے جہاں پاک فوج کے جوان اپنی جانوں پرکھیل کر پاکستان کی داخلی سلامتی یقینی بنا رہے ہیں تو ایسے حملوں کو روکنے کیلئے سرحدی گشت میں اضافے کیساتھ سفارتی محاذ پر بھی کاروائی ہونی چاہئے کیونکہ پاکستان پر سرحد پار سے حملوں کے جاری سلسلے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کی تعمیروترقی اور معاشی استحکام کی کوششوں کو نقصان پہنچایا جائے‘ جن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ بھی شامل ہے‘ سب سے بڑھ کر ضرورت دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں عوام کا قانون نافذ کرنیوالے ریاستی اداروں پر اعتماد کی بحالی ہے ماضی میں اور حال میں عسکریت پسندی سے متاثر ہونیوالے ’امن کی دعائیں‘ مانگ رہے ہیں‘ قابل ذکر ہے کہ وزیرستان اور سوات میں حال ہی میں امن و امان معمول پر آیا ہے جہاں امن و امان کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کرنیوالے سروں پر کفن باندھ کر لاکھوں کی تعداد میں ”امن غواڑو“ کے نعرے لگا رہے ہیں کیونکہ یہ عام لوگ (ہم عوام) معمول کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جو اِنکا بنیادی حق ہے‘یہی وجہ ہے کہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے وہ ریاست اور ریاستی اداروں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کر رہے ہیں‘ خیبر پختونخوا میں دہشت گرد حملوں کا ایک رخ ’مذہبی انتہا پسندی‘ کا فروغ اور ’ٹارگٹڈ کلنگ‘ بھی ہے کیونکہ جب بھی دہشت گردی حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ ریاستی اداروں کو بیک وقت کئی محاذوں پر الجھا دیتے ہیں‘ اِس موقع پر تجویز ہے کہ ماضی کی طرح ’کمیونٹی پولیسنگ میکانزم‘ کے ذریعے مقامی لوگوں کو سکیورٹی کی کوششوں میں شامل کیا جائے‘ صرف اُنہی علاقوں میں سکیورٹی ادارے فعال نہ ہوں جو دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں سکیورٹی کی صورتحال پر نظرثانی کی ضرورت ہے پاکستان کے ہزاروں بہادر سپاہی اور پولیس اہلکار پہلے ہی ملک میں قیام امن کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں‘ پاکستان میں امن کی تاریخ اِن شہیدوں کے لہو سے سرخ ہے‘ جنکی قربانیوں کا اعتراف اور اُنہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ملک دشمنوں کے خلاف پُرعزم عملی کاروائیوں کی ضرورت ہے قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کو 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں پیش آئے واقعات سے اسباق سیکھناچاہئیں جب عسکریت پسند گروہ پھیل گئے تھے اور اُنہیں شہر شہر سہولت کار میسر تھے فی الوقت بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ عسکریت پسند اپنے رابطے بحال کر رہے ہیں اور اِنکی طرف آنکھیں بند کرنا سود مندنہیں ہوگا۔