مولانا کی محبت 

اوریوں انہوں نے پھرکمال محبت وشفقت کا مظاہرہ کرتے  ہوئے ہمیں میزبانی کاموقع دے ڈالا اس سے قبل بھی جب ہم نے انہیں دفتر آنے کی دعوت دی تھی تو فوری طورپر قبول کرتے ہوئے نقد دفترپہنچ گئے تھے  ا س بار وہ آئے تو نہ صرف روزنامہ آج بلکہ آج ڈیجیٹل کے بھی مہمان بنے آج ڈیجیٹل کے جدید سٹوڈیو میں پہلا انٹرویو انہی کاہوا اورانہوں نے خلوص دل سے دعاؤں سے بھی نوازا۔ مولانا فضل الرحمن کی یہ محبت ہمارے لیے ناقابل فراموش ہے جہاں تک ان کی سیاست کاتعلق ہے تو اگریہ کہاجائے اس وقت مولانا فضل الرحمن ملکی سیاست کامرکز بنے ہوئے ہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ وہ نہ صرف ملک کی  دینی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر ہیں جس کے پلیٹ فار م سے وہ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کے خلاف مسلسل سرگرم عمل ر ہے بلکہ وہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے اور اکلوتے اتحاد پی ڈی ایم کے مرکزی صدر بھی ہیں۔پی ڈی ایم ملک کاواحد سیاسی اتحاد ہے جو پہلی بار کسی وزیرا عظم کو عدم اعتماد کے ذریعہ گھربھجوانے میں کامیاب رہا۔اس سے پہلے جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے ان  میں سے بھی بعض کی جدوجہد کے نتیجہ میں اس وقت کی حکومتیں فارغ ہوئیں مگر عدم اعتماد کی نوبت کم ہی آئی اس سے قبل تحریک عدم اعتماد ملکی تاریخ میں دومرتبہ عدم اعتماد کی تحاریک پیش کی گئیں تھیں مگر دونوں ہی ناکا م ہوئی تھیں۔ طویل عرصہ بعد جب جمہوریت بحال ہوئی اور بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں تو ان کی حکومت کوشروع سے ہی اپوزیشن کی بھرپور مخالفت کاسامنا کرنا پڑرہاتھا اور پھر 23اکتوبر 1989ء کو 86اراکین کے دستخطوں سے بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ فاٹا کے آزاد ارکان نے بھی اس کی حمایت کی تحریک عدم اعتماد کے معاملہ کو اس قدر خفیہ رکھاگیاکہ بے نظیر حکومت کو آخر تک پتہ ہی نہ چل سکا۔تحریک پر رائے شماری کے لیے یکم نومبر کی تاریخ رکھی گئی اس روز پیپلز پارٹی کے ارکان کو جہاز کے ذریعہ مینگورہ سے اسلام آباد سخت حفاظتی انتظام میں لایا گیا جبکہ آئی جے آئی کے حامی ارکان اسمبلی کو مری سے چار کوچوں میں پنجاب پولیس کے زیر نگرانی لایا گیا۔ اپوزیشن کو سوفیصدیقین تھاکہ تحریک کامیاب ہوگی اوربے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوجائے گی مگر نتیجہ اس کے برعکس 232کے ایوان میں سے تحریک عدم اعتماد کے حق میں 107ووٹ پڑے جبکہ تحریک کی کامیابی کے لیے 119ووٹوں کی ضرورت تھی یوں یہ پہلی تحریک عدم اعتمادناکامی سے دوچار ہو گئی‘پاکستان کی تاریخ میں دوسری بارتحریک اعتماد وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف پیش کی گئی جن
 دنوں اکبر بگتی کے قتل کاواقعہ رونما ہوا تھا انہی دنوں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت با لخصوص جنرل پرویز مشرف کو اس کاذمہ دار قراردیتے ہوئے نہ صرف ملک بھر بلکہ اسمبلی کے اندر بھی بھرپور احتجاج کیاتھا جبکہ حکومت کے خلاف نیا محاذ بھی گرم کرنے کافیصلہ کرتے ہوئے  اس سلسلہ میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے 23اگست 2006کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی جس پر 141اراکین کے دستخط تھے تحریک کے ساتھ حکومت کے خلاف پانچ سو صفحات پر مشتمل چارج شیٹ بھی جمع کرائی گئی ان دنوں 342رکنی ایوان میں حکومتی حامی اراکین کی تعداد 201جبکہ اپوزیشن اراکین کی تعداد 141تھی 29اگست کو اس تحریک پرووٹنگ ہوئی تو اس کی حمایت میں 136ووٹ پڑے گویا اپوزیشن کو پانچ ووٹ کم ملے۔دوسری مرتبہ بھی اپوزیشن کو نہ صرف تحریک عدم اعتماد منظور کرانے میں ناکامی کاسامناکرناپڑا تھا بلکہ ایک مرتبہ پھر خود اپوزیشن کے ممبران غائب ہوگئے تھے  یوں دوسری تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب نہ ہوسکی دلچسپ امریہ ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن تھے مگر رواں برس دس اپریل کو پی ڈی ایم کی طرف سے پیش
 کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنارہوگئی اس کاکریڈٹ بہرحال مولانا فضل الرحمن کی مستقل مزاجی کو جاتاہے جو پچیس جولائی 2018کے الیکشن کے بعد سے ہی انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے میدان میں تھے۔ انہوں نے اگلے روزہی اپوزیشن جماعتوں کو اسلام آبا د میں اکٹھا کیااور ان کو مشورہ دیاکہ اسمبلی میں جانے سے انکار کرتے ہوئے حلف نہ اٹھائیں اور نئے الیکشن کے لیے فوری طورپر میدان میں نکلیں مگرتب دونوں بڑی جماعتوں نے مولانا کے مشورے کووزن نہ دینے کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی کہ ن لیگ کو پنجاب اور پی پی پی کو سندھ میں اپنی حکومت بنتے ہوئے محسو س ہورہی تھی دونوں جماعتوں کی اپنی سیاست تھی انہوں نے تب مولانا کو تنہا چھوڑ دیاتھامگر مولانا بھی ہار ماننے والے نہ تھے وہ شروع سے میدان میں نکل آئے حتیٰ کہ اگلے سال ہی انہوں نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہوئے دھرنا بھی دے دیا تھا اس موقع پر بھی بڑی اتحادی جماعتوں نے عملی طورپر انہیں تنہا چھوڑ دیاتھا۔ایک بار دوران ملاقات مولانا نے خودراقم کے سامنے اپنی اتحادی جماعتوں کی”بے وفائی“پر دل گرفتگی کااظہار کیاتھا اس موقع پر  ان کہناتھاکہ ایک کو پکڑوتودوسرا پھسل جاتاہے اگرچہ وہ کسی حدتک مایوس تھے مگرباز آنے والے کہاں تھے آخر کار ستمبر 2020میں وہ اپوزیشن کی اہم جماعتوں کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فار م پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے البتہ اے این پی اورپی پی پی چھ ماہ بعد اس اتحاد سے الگ ہوگئیں مولانا کاشروع سے یہی مؤقف رہاکہ اسمبلیوں سے استعفے دینے چاہئیں مگر جب معاملات عدم اعتماد تک پہنچ گئے اور تمام جماعتوں نے پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی پر اتفاق کرلیا تو مولانا فضل الرحمن بھی پیچھے ہٹ گئے اور یوں وہ پی ٹی آئی کی حکومت کی رخصتی کے دیرینہ مقصد میں کامیاب ہوگئے اور اس وقت وہ حکومتی اتحاد کے سربراہ کے طورپر اہم کردار نبھانے میں مصروف ہیں مولانا فضل الرحمن اس ملک کے مصروف ترین سیاسی رہنما ہیں مگر ہم نے جب بھی رابطہ کیا کمال محبت وشفقت کامظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف وقت دیا بلکہ تفصیلی نشست کاموقع بھی فراہم کیا۔ نجی محفل میں مولانا ایک سیاستدان سے زیادہ ایک بہترین دوست کے طورپرسامنے آتے ہیں ان کی محافل تصنع سے مبراء ہوتی ہیں ان دنوں بھی ان کی سیاسی مصروفیات بہت زیادہ ہیں مگر ہماری دعوت پر نہ صرف دفتر آئے بلکہ اپنا ڈھیرسارا قیمتی وقت بھی دیا مولانا کی سیاست اور ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف رکھنا سب کاحق ہے مگر ان کے مزاج کے دھیمے پن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔