عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کہا ہے کہ ”دنیا کی قریب نصف آبادی منہ کی بیماریوں میں مبتلا پائی گئی ہے‘ جس سے واضح ہے کہ ’عالمی سطح پر منہ کی بیماریوں کی روک تھام کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جا رہے۔‘ اقوام متحدہ کی ’اکنامک اینڈ سوشل کونسل‘ کا یہ ذیلی ادارہ (ڈبلیو ایچ او) 74 سال قبل قائم ہوا۔ اِس کا صدر دفتر سوئزرلینڈ کے شہر ’جنیوا‘ میں ہے اور اِس کا سالانہ بجٹ قریب 8 ارب ڈالر ہے۔ یہ عالمی سطح پر امراض‘ وباؤں اور اُن کے علاج معالجے کی صورتحال پر نظر رکھنے کے علاوہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو طبی امداد یا تکنیکی مشاورت بھی فراہم کرتا ہے۔ ’ڈبلیو ایچ او‘ عالمی سطح پر دانتوں کے امراض سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس منظرعام پر لانے کے موقع پر ڈبلیو ایچ او کے سربراہ (منیجنگ ڈائریکٹر) ’ٹیڈرس ایڈہانم (Tedros Adhanom)‘ نے کہا ہے کہ ”اِس وقت دنیا کی 45 فیصد آبادی یعنی ساڑھے تین ارب لوگ منہ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ یہ عمومی بیماریاں دانتوں کی خرابی‘ اِن میں درد کی شکایت‘ مسوڑوں کی سوجن اور دانت گرنے کا باعث بنتی ہیں جبکہ خطرناک بیماریوں میں منہ کا کینسر سرفہرست ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ گزشتہ تیس سال کے دوران دنیا بھر میں منہ کی بیماریوں کے شکار افراد کی تعداد میں ’ایک ارب‘ کا اضافہ ہوا ہے۔ غریب اور وسط آمدنی والے ممالک کے افراد زیادہ تر منہ کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ’ڈبلیو ایچ او‘ نے دنیا پر زور دیا ہے کہ ”منہ کے علاج میں کام آنے والے آلات‘ بیماریوں کی تشخیص ادویات اور سستے ٹوتھ پیسٹس کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ بظاہر عمومی اور نظرانداز کئے جانے والے ’منہ کے امراض‘ پر قابو پایا جا سکے جو تیزی سے پھیل رہے ہیں۔“منہ کی صحت کا تعلق صرف مجموعی انسانی صحت سے ہوتا ہے۔ جسم کے دیگر حصوں کی طرح‘ منہ میں بھی بیکٹیریا پائے جاتے ہیں لیکن اِن میں زیادہ تر بے ضرر ہوتے ہیں لیکن چونکہ منہ کے ذریعے سانس کے علاوہ کھانے پینے جیسے عمومی معمولات کئے جا رہے ہوتے ہیں اِس لئے اگر منہ کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو منہ میں پیدا ہونے والے جراثیم ہاضمے اور سانس کی نالیوں میں داخل ہو کر بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ بیکٹریا (Bacteria) خوردبینی یک خلوی یا خیطی ریشی اور سوت نما پودے جیسے جاندار (جراثیم) ہوتے ہیں۔ دانتوں کی اچھی دیکھ بھال یعنی روزانہ مسواک یا برش کے ذریعے صفائی‘ دانتوں کے درمیان خلال (فلاسنگ) سے منہ میں پیدا ہونے والے جراثیموں (بیکٹیریا) کی افرائش روکی جا سکتی ہے بصورت دیگر بیکٹریا بڑھنے سے نہ صرف منہ میں بدبو اور ذائقے کی تبدیلی پیدا ہوتی ہے بلکہ متاثرہ مسوڑے دانتوں کو کمزور کرتے ہیں۔ بعض ادویات کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفکٹس) کی
وجہ سے منہ میں پیدا ہونے والا لعاب کم ہو جاتا ہے اور جب یہ لعاب جسے تھوک بھی کہا جاتا ہے کم ہوتی ہے تو بیکٹیریا کی وجہ پیدا ہونے والے تیزابی مادے منہ اور جسمانی بیماریوں کا باعث بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ اِس سے ذیابیطس (شوگر) اور اِیڈز (ایچ آئی وی) کے خلاف جسمانی مزاحمت یا مدافعت کم ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دانتوں کی صفائی اور منہ کی صحت کو تندرست و طویل (بہتر) زندگی کے لئے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ تحقیق و مطالعات سے دل کے امراض اور حافظے کی کمزوری کا تعلق بھی دانتوں کی صفائی نہ کرنے سے پایا گیا ہے۔ ڈاکٹر دن میں کم سے کم 2 مرتبہ دانت صاف کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جبکہ یہ صفائی کم سے کم 2 منٹ تک مسواک یا برش یا خلال کی صورت کارگر ہوتی ہے۔ ہمیشہ نرم ریشوں والا مسواک یا برش استعمال کریں اور جو لوگ ٹوتھ پیسٹ پسند کرتے ہیں اُنہیں ’فلورائیڈ‘ والا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا چاہئے۔دانتوں کی صفائی کے لئے ہر بہترین سے زیادہ بہترین حل ’مسواک‘ ہے‘ جس کا کوئی نعم البدل نہیں اور نہ ہی کوئی ’سائیڈ ایفیکٹ‘ ہے۔ ’مسواک‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول اور عمل (سنت نبوی) ہونے کی وجہ سے اجروثواب کا باعث بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”اگر میری اُمت کو دشواری لاحق نہ ہوتی تو میں مسواک کرنے کو فرض قرار دے دیتا۔“ ایک اور حدیث مبارک ہے کہ ”مسواک
اہتمام سے مسواک کرو‘ اِس سے غفلت مت اختیار کرو‘ اس میں 24 خوبیاں (فوائد) ہیں‘ جن میں افضل ترین یہ ہیں کہ ’مسواک اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے۔‘ مسواک سے سرکے درد کو آرام ملتا ہے اور مسواک داڑھ کا درد دور کرتی ہے۔“ مسواک کسی بھی درخت کی ٹہنی (شاخ) کے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو ایک انگلی جتنی باریک اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت (ہاتھ) جتنی لمبی ہونی چاہئے البتہ یہ اتنی چھوٹی نہ ہو کہ اِسے پکڑنے (گرفت) میں مشکل ہو۔ ’مسواک‘ جسے عربی زبان میں ’السواک‘ کہتے ہیں عموماً زیتون‘ نیم اور پیلو کی شاخوں سے بنائی جاتی ہے کیونکہ اِن درختوں کی ٹہنیاں (شاخیں) ریشہ دار ہوتی ہیں۔ ایک تصور یہ بھی ہے کہ بہتر مسواک وہ ہوتی ہے جو درخت کی جڑ سے بنائی جائے لیکن یہ عمل درست نہیں کہ مسواک بنانے کے لئے درخت کاٹ دیا جائے شاخوں سے بننے والی مسواک بھی یکساں مفید رہتی ہے۔ ’مسواک‘ کئی امراض میں بطور علاج تجویز کی جاتی ہے جیسا کہ نیم کی مسواک منہ سے بدبو‘ جھاگ یا بہنے والے پانی اور چہرے و جسم پر پھوڑے پھنسیاں ختم کرتی ہے۔ بادام و اخروٹ کی مسواک سے نظر کی کمزوری دور ہوتی ہے۔ پیپل کی مسواک سے تپ دق (ٹی بی)‘ خونی بواسیر اور السر کے علاج میں مدد ملتی ہے جبکہ ’اسگند (جسے اسگندھ ناگوری بھی کہتے ہیں)‘ کی مسواک مسوڑوں کے ورم اور منہ میں پیدا ہونے والے زائد گوشت کو زائل کرتی ہے۔