کیریئرکونسلنگ، اہم مگر نظر انداز شعبہ

ہمارے ملک میں تعلیم کا شعبہ ابھی بھی بہت سے ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ مضمون کے انتخاب میں طالب علم سے اس کی مرضی نہ تو والدین پوچھتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی آگاہی دی جاتی ہے کہ ان کے بچے کے لیے کونسا شعبہ مناسب رہے گا۔زیادہ تر پاکستانی والدین میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو لازمی طور پر ڈاکٹر، انجینئر، اکاؤئنٹنٹ وغیرہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ جانے بنا کہ ان کا بچہ یہ سب کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔ بچے بھی کسی کو سن کر یا کسی کو دیکھ کر شعبہ چن لیتے ہیں اور پھر نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ غیر اطمینانی صورت حال رہتی ہے۔اس صورت حال سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ تعلیم کے دوران مضامین اور شعبے کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ بہت سے ممالک میں طلبہ کی اس مشکل کو دور کرنے کے لیے کیریئر کونسلنگ پر زور دیا جاتا ہے۔ وہاں اس کے لیے باقاعدہ پروفیشنل کیریئر کونسلر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے کہ طلبہ کو باقاعدہ کیریئر کی طرف رہنمائی کی جائے جو ان کے لیے بہترین اور ان کی دلچسپی کے مطابق ہو۔ تاکہ وہ اچھی کار کردگی دکھا سکیں۔کونسلنگ کا مطلب مشورہ لینا یا رہنمائی لینا ہے اور ایک طالب علم کے لیے تعلیمی سفر کے دوران یہ بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ہم کون سے مضامین منتخب کریں؟ ہمارا رجحان کیا ہے؟ منتخب مضامین میں کارکردگی کیسے اچھی دکھانی ہے؟ کن مضامین کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہے؟ منتخب شدہ مضامین میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہمارے سامنے کس کس فیلڈ کے راستے کھلے ہیں؟ ان سب سوالوں کے جواب اور معلومات کسی بھی طالب علم کی زندگی میں بہت اہم ہیں۔ یہی سب سوالات کیریئر کونسلنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ہم میں سے بہت سے اپنا زمانہ طالب علمی اس شش و پنج میں گزارتے ہیں کہ آیا ہمارا فیصلہ بھی درست ہے یا نہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کے مطابق تعلیمی سفر میں یہ سٹیج پہلی مرتبہ مڈل/ آٹھویں کلاس میں آتی ہے۔ جب نویں جماعت کے مضامین کا ٹھیک فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ کوئی مضمون یہ سوچ کر رکھ لیتے ہیں کہ آسان ہے یا یہ سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ اہم نہیں۔ اول تو پڑھے بنا اس کے بارے پتہ ہی نہیں ہوتا۔ اور اکثر طالب علم آدھا تعلیمی سال گزرنے کے بعد پچھتاوے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کاش یہ مضمون نہ چھوڑتا یا وہ نہ رکھتا۔ ایسے میں طالب علم کو ذہنی طور پر اپنے سامنے کھلے راستے بھی بند نظر آتے ہیں۔مثلا بہت سے بچے کیمسٹری مشکل سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں جبکہ یہ ایک دلچسپ مضمون ہے، دوسرا اس کو چھوڑنے سے بہت سی چوائسسز ختم ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں کونسلنگ بہت ضروری ہے۔اگر دیکھا جائے تو مڈل کے لیول پر تو سکول کے بہت سے تجربہ کار اساتذہ کونسلنگ کی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی کے لیول پر پروفیشنل کونسلر کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاکہ جس بھی پروگرام کی طرف آپ کا رجحان ہے اس کے بارے پیشہ وارانہ طور پر ان کے بارے رہنمائی کر سکیں۔کیریئر کونسلنگ کرتے ہوئے سب سے پہلے ذہنی رجحان پر توجہ دینا چاہئے۔ طالب علم کیا چاہتا ہے اور اس کی ذہنی استعداد کن مضامین کے مطابق ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی مضمون طالب علم کے رجحان کے مطابق نہیں ہے لیکن والدین اسی کے لیے بضد ہیں تو کیرئیر کونسلر کی ہی مدد سے راضی کی جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ موجودہ حالات میں بہت سے طلبہ معاشی طور پر مشکل میں ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی کی ہائی فیس اور وسائل کی کمی کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی مضمون یا شعبے کا انتخاب کرتے وقت یہ ذہن میں لازمی رکھنا چاہئے کہ منتخب شدہ مضامین معاشی مسائل حل بھی کریں گے یا نہیں۔ اس کے علاوہ کونسلر یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ آیا منتخب شدہ مضامین کی مارکیٹ میں بھی مانگ ہے یا نہیں ہر سال ہزاروں طلبا اپنے والدین اور اردگرد والوں کے دباؤ میں آکر یا اپنا رجحان نہ سمجھ کر غلط مضامین کا انتخاب کر بیٹھتے ہیں اور اپنی زندگیاں برباد کر لیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیز میں باقاعدہ ایسے کونسلر تعینات کرے، جو طلبہ اور ان کے والدین کو مناسب مشورہ دے سکیں۔