قومی سطح پر جمع شدہ اعدادوشمار کے مطابق حالیہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان بھر میں چالیس بچے ’خناق‘ کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں اور اِن ہلاکتوں کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ خناق اچانک وبائی صورت میں پھیل گیا ہے بلکہ خناق قابل علاج مرض ہے اور اِس کے علاج اور اِس کی شدت میں اضافے کو روکنے کی دوا (ویکسین) دستیاب نہیں تھی۔ ذہن نشین رہے کہ خناق نظام تنفس کے بالائی حصے (سانس کی نالی) کا عارضہ ہے جو ایک جرثومے (وائرس) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اِس کی وجہ سے گلے میں سوجھن پیدا ہونے کے باعث سانس لینے میں دقت (دشواری) محسوس ہوتی ہے۔ یہ مرض (گلے کی بیرونی و داخلی سوجھن) فوری طور پر اِس قدر شدید شکل اختیار کر لیتا ہے کہ متاثرہ بچے یا بچی کو اگر فوری متعلقہ دوا (ویکسین) نہ دی جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے (دو سے پانچ دنوں میں) اُس کی موت ہو جاتی ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ خناق سے متاثرہ بچے کس اذیت سے گزرے ہوں گے جب وہ سانس لینا چاہتے ہوں گے لیکن مرض نے اُن کا گلہ دبا رکھا ہوگا۔ خناق کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اکثر رات کے اوقات میں اپنی شدت کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے جبکہ علاج گاہ تک پہنچنے اور علاج شروع ہونے میں دیر ہو جاتی ہے اور پاکستان جیسے حالات میں کہ جہاں دوا (ویکسین) ہی دستیاب نہ ہو تو ایک قابل علاج مرض بھی لاعلاج بن جاتا ہے۔ تین درجن سے زائد (چالیس اموات) بہت ہوتی ہیں اور جب ہم اموات کی بات کر رہے ہیں تو اِس کا تعلق انسانوں اور وہ بھی معصوم بچوں سے ہے‘ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہئ صحت کی کارکردگی بہتر بنانے اور مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے لئے تدابیر و اقدامات کئے جائیں۔’خناق‘ کی بیماری بچوں کو دیئے جانے والے معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کا حصہ ہے لیکن اِس طرح بچوں کی اموات سے یہ بات بھی عیاں ہوئی ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے فراہم کردہ اعدادوشمار اور زمینی حقائق حکومتی دعوؤں کے برعکس ہیں۔ اگر حفاظتی ٹیکوں کو (حسب ِدعویٰ) جامعیت و کامیابی سے مکمل کیا گیا ہوتا تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی لیکن یہ پوری صورتحال صحت کے شعبے میں اُس ”خاص ناکامی“ کو ظاہر کر رہی ہیں‘ جو غلط بیانی اور دروغ گوئی پر مبنی ہے اور اگرچہ قومی اور صوبائی سطح پر ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (HMIS) موجود ہے جس کے ذریعے صحت کی فراہم کردہ سہولیات اور کسی وبا یا بیماری کو اُس کی ابتدائی حالت ہی میں ’فوری ردعمل سے‘ روکا جا سکتا ہے لیکن چونکہ کمپیوٹر کا اپنی ذہانت نہیں ہوتی اِس لئے غلط اعدادوشمار اِسے مہیا کرنے پر جواب بھی غلط ہی برآمد ہوتا ہے‘ جس کی روشنی میں ردعمل فوری نہیں ہوسکتا۔ اخبارات کی بدولت صحت سے متعلق فیصلہ سازوں کو معلومات اور کسی درجے لائحہ عمل مرتب کرنے سے متعلق رہنمائی مل جاتی ہے بصورت دیگر صحت سے متعلق معلومات جمع کرنے کا موجودہ نظام ناقابل بھروسہ ہے اور وقت ہے کہ اِس نظام پر بھی نظرثانی کی جائے۔
عالمی ادارہئ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونائٹیڈ نیشنز چلڈرن فنڈ (یونیسیف)‘ نے مہلک متعدی بیماری میں حالیہ اضافے کا مقابلہ کرنے کے لئے ’اینٹی ڈیفتھیریا سیرم‘ فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔ پولیو کی طرح خناق بھی ایک وبائی مرض ہے جسے دنیا کے بیشتر ممالک اپنے ہاں سے مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن پاکستان میں یہ مرض نہ صرف پایا جاتا ہے بلکہ اِس سے ہر سال اموات بھی ہوتی ہیں۔ خناق سے بچاؤ ایک ویکسین کی مدد سے باآسانی ممکن ہے۔ یہ مرض بچوں یا نوعمر (نومولودوں)کو نشانہ بناتی ہے۔ پاکستان میں حکام اس خطرے کی سنگینی سے بخوبی واقف ہیں اور انہیں اپنی حفاظتی ٹیکوں کی مہم کی مکمل کوریج کے انتظامات پر زیادہ سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے تھی کیونکہ خناق سے اموات ہر سال کا معمول بن چکی ہیں‘ اگرچہ ملک میں حفاظتی ٹیکوں کی معمول کی شرح میں اضافے کے دعوے کئے جاتے ہیں تو اِنہیں حقیقت سے قریب کرنے کے لئے عملی طور پر بھی اقدامات ہونے چاہئیں۔ حفاظتی ٹیکوں کی ٹیموں کے لئے ادویات (سیرم) کی بروقت فراہمی ایک سے زیادہ متعلقہ حکومتی اداروں کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ خناق ویکسین اگر کہیں سے مفت نہیں مل رہی تو اِس کی بروقت خریداری (حصول) کا عمل بہت پہلے شروع کر دینا چاہئے تھا تاکہ حفاظتی ٹیکوں کی مہمات کے موقع پر بچوں کی باقاعدہ ویکسینیشن کی جا سکتی۔ ویکسین کا انتظام بنیادی طور پر حکومت کے دائرہئ اختیار میں آتا ہے اور جب اِسے ’ڈبلیو ایچ او‘ یا ’یونیسیف‘ سے ادویات کی صورت مدد ملتی ہے تو بیماری کا مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں ’پینٹا ویلنٹ‘ نامی ویکسین اور ’اینٹی ڈیفتھیریا سیرم‘ دونوں ہی ’آؤٹ آف سٹاک‘ ہیں جبکہ اِن کی عدم دستیابی سے متعلق حقائق فیصلہ سازوں کے علم میں بھی ہیں۔ بنیادی علاج کے مراکز (BHUs) میں خاص عمر تک بچوں اور بالخصوص نومولود بچوں کو باقاعدگی سے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں لیکن بڑے شہروں اور شہری مراکز سے دور دیہی علاقوں میں علاج کی سہولیات خاطرخواہ وسیع نہیں ہیں چونکہ خناق عالمی مسئلہ نہیں‘ اس لئے امداد دینے والے ممالک یا ادارے اِسے زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتے اور جن ممالک میں ’خناق‘ موجود ہے اُسے ختم کرنے اور اِس کے علاج کے لئے ازخود محنت کی ترغیب دی جاتی ہے۔ دوسری اہم بات خناق ویکسین زیادہ بڑے پیمانے پر بنائی بھی نہیں جا رہی کہ یہ پاکستان جیسے ممالک کو مفت فراہم کی جائے اِس لئے جو بھی کرنا ہے‘ حکومت کو اپنے وسائل سے اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کرنا ہے اور کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کے اپنے ویکسین ساز ادارے خناق کی ویکسین بنائیں اور حفاظتی ٹیکوں کی مہمات کو اِس قدر بڑے پیمانے پر توسیع دی جائے کہ یہ مرض ہی باقی نہ رہے۔ بنیادی ضرورت‘ مطالبہ اور تجویز یہ ہے کہ پاکستان کو مقامی طور پر ’خناق ویکسین‘ کی تیاری کے لئے وسائل مختص کرنے چاہئیں۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے کمی کی وجہ سے کئی ادویہ ساز اداروں (ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں) نے پاکستان سے اپنے کاروبار ختم کر دیئے ہیں یا وہ صرف وہی ادویات مارکیٹ کر رہے ہیں جن پر اُن کی اجارہ داری اور منافع نسبتاً زیادہ ہے۔ یہ صورتحال تیئس کروڑ لوگوں کے ملک کے لئے خوش آئند نہیں کیونکہ ایک تو پاکستان میں ایسی وبائیں اور امراض عام ہیں‘ جن سے دنیا کب کی چھٹکارا پا چکی ہے اور دوسرا پاکستان کی آبادی میں قریب دو فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے اور اِس اضافے کا مطلب ہے کہ ہر سال پہلے سے زیادہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں ہر سال 40 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو خناق سمیت دیگر امراض کی ویکسینیشن باقاعدگی اور وقفوں وقفوں سے دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں ختم ہونے والی بیماریاں اگر اب بھی پاکستان میں موجود ہیں تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ بیماریاں سخت جان ہیں بلکہ صحت سے متعلق فیصلہ سازوں کی کارکردگی قابل رشک نہیں ہے۔ اِس تلخ حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ خناق ایک مہلک بیکٹیریل انفیکشن ہے‘ کسی بھی صورت اِس کی ویکسینیشن کی دستیابی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ خناق سے بچاؤ بذریعہ ویکسین ممکن ہے لیکن اِس کے باوجود اگر تمام صوبوں میں ہر ہفتے اِس کے درجنوں کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں تو یہ لمحہ فکریہہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’حفاظتی ٹیکوں‘ سے متعلق موجودہ حکمت عملی پر نظر ثانی کرتے ہوئے ہر بچے کو تحفظ ”یعنی زندہ رہنے کا حق“ دیا جائے گا جو اِس کا پیدائشی حق اور صحت سے متعلق قومی و صوبائی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ سوچئے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں اور ہم بچوں کے لئے زندگی اور موت میں سے کس چیز کا اِنتخاب کر رہے ہیں!؟