رواں برس ملک گیر گیس بحران کا آغاز موسم سرما سے قبل ہوا‘ جس کے باعث چھوٹے بڑے شہروں میں معمولات ِزندگی متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں اور ایسی کوئی بھی اُمید (آس) دکھائی نہیں دے رہی کہ مستقبل قریب میں جاری توانائی بحران حل ہو سکے اور یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے کیونکہ دو پبلک سیکٹر گیس یوٹیلیٹیز (سوئی سدرن اور سوئی نادرن) نے واضح کر دیا ہے کہ ملک میں گیس کا خاطرخواہ ذخیرہ موجود نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میدانی علاقوں میں روک روک کر یعنی ناپ تول کر (وقفوں وقفوں سے) گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ گیس کی رسد میں کمی اور بڑھتی ہوئی طلب کا یہ پہلا موسم سرما نہیں اور نہ ہی یہ آخری ہوگا کیونکہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے توانائی کے اِس اہم ذریعے سے جڑے مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے بہت ہی کم کام کیا ہے۔ دوسری طرف گیس صارفین کی بڑی تعداد نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنے طرز زندگی میں تبدیلی نہیں لائیں گے اور لب لباب یہ ہے کہ گیس کا بیجا استعمال روکنے کے لئے کوئی رضاکارانہ طور پر تیار (آمادہ) نہیں ہیں۔ ایک وقت تھا جب گیس کی گھر گھر باسہولت فراہمی نہیں کی جا رہی تھی اور سردیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے آج کے مقابلے دستیاب مالی و ایندھن کے وسائل بھی انتہائی محدود ہوا کرتے تھے لیکن تب کچے گھروں میں رہنے والے پکے ارادوں کے لوگ ایک ایسے مقامی رہن سہن کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے جس میں نمودونمائش اور فرضی سہولیات نہیں ہوتی تھیں بلکہ ہر کام حسب ضرورت اور بقدر ِضرورت کیا جاتا تھا جیسا کہ اگر پانی گرم کرنا ہوتا تو صرف اُتنا ہی پانی گرم کیا جاتا جس سے ایک وقت کی ضرورت پوری ہوتی۔ برتن جمع کر کے دھوئے جاتے اور بار بار کی ضرورت ہے کے لئے چھوٹے برتنوں میں نیم گرم پانی رکھا جاتا لیکن اب ’گیزرز‘ کا زمانہ ہے جس میں درجنوں بالٹی پانی اُبلنے کے قریب درجہئ حرارت پر بھرا رہتا ہے اور چاہے اِس قدر پانی سے استفادہ بھی نہ ہو لیکن یہ ’گیزرز‘ استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ نل کھولتے ہی گرم پانی کی سہولت میسر آ جائے۔ دوسری اہم بات پانی کا اِسراف ہے جو ہر موسم یعنی سردی گرمی دیکھنے میں آتا ہے۔گیس بحران سے صرف گھریلو صارفین ہی نہیں بلکہ کاروباری طبقات بھی پریشان ہیں اور اگرچہ موسم سرما سے قبل یعنی رواں سال سال کے آغاز پر ہی گیس بحران کے حوالے سے متعدد انتباہات (وارننگز) جاری کر دیئے گئے تھے لیکن وہ کاروبار جن کے لئے گیس بطور ایندھن درکار ہے‘ اُنہیں سستا ایندھن تو چاہئے لیکن وہ اِس شعبے میں متبادل ایندھن کے لئے سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہیں اور حکومت پر اِس بات کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اگر چھوٹی بڑی صنعتیں بند ہوئیں تو اِس سے روزگار کی فراہمی متاثر ہو گی۔ گیس کے مقامی ذخائر کی کمی‘ گیس کے نئے ذخائر کی کھوج نہ ہونا اور درآمدی مائع گیس (ایل این جی) کی بلند قیمتوں کی وجہ سے بحران پیدا ہوا ہے اور یہ تینوں مسائل قابل حل ہیں لیکن کوئی بھی حل اچھوتا اور گیس بحران سے متعلق کوئی بھی بات ’نئی بات‘ نہیں رہی۔ حال ہی میں پیٹرولیم ڈویژن کے سینئر حکام قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ ”ہر سال بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظر گیس کی فراہمی میں تعطل (لوڈشیڈنگ) کیا جا رہا ہے“ تو اِس میں ’نئی بات‘ کیا ہے کیونکہ اِس صورت حال احوال سے وہ پاکستانی بخوبی واقف ہیں جو خود کو آگاہ رکھتے ہیں اور خود کو کسی دھوکے (مغالطے) میں نہیں رکھنا چاہتے اور جانتے ہیں کہ بطور گھریلو صارفین اِنہیں 24 گھنٹوں میں سولہ گھنٹے بغیر گیس کے زندگی بسر کرنا پڑے گی اور ایسا گزشتہ کئی برس سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ توانائی بحران کے حوالے سے ’نئی بات‘ یہ ہے کہ رواں سال ’سوئی سدرن (ایس ایس جی سی)‘ اور ’سوئی ندرن (ایس این جی پی ایل)‘ کی پائپ لائنوں سے جڑے گھریلو صارفین کو یومیہ سولہ گھنٹے بغیر گیس کے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ماضی میں کبھی بھی سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی اور اِس کا مطلب یہ اندیشہ ہے کہ آئندہ سال چوبیس گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے کی بجائے شاید چار گھنٹے گیس ملے گی کیونکہ عوام نے اگر سولہ گھنٹے کی گیس لوڈشیڈنگ خاموشی سے برداشت کر لی ہے تو یہ یومیہ بیس گھنٹے اور اِس سے بھی زیادہ دورانئے کی گیس لوڈشیڈنگ برداشت کر سکتے ہیں! گیس بحران کا حل درآمدی گیس سے ممکن ہے لیکن چونکہ گھریلو صارفین کے لئے گیس کی قیمت کم رکھی گئی ہے اِس لئے قومی معیشت فی الوقت‘ مہنگے داموں گیس درآمد کر کے اِسے سستے داموں فروخت کرنے کا بوجھ اُٹھانے کی متحمل نہیں اور اگر گیس اصل قیمت پر فراہم کی جائے تو اِس کی قیمت ادا کرنا گھریلو صارفین کی اکثریت کے لئے ممکن نہیں ہوگا تاہم گیس لوڈشیڈنگ‘ کسی بھی طرح‘ اِس مسئلے کا حل نہیں۔ گیس کی قلت اگر سال بہ سال بڑھ رہی ہے تو اِس کا مطلب کوئی ایسا حل تلاش کرنا ہے جو طویل مدتی بنیادوں پر قومی وسائل پر انحصار رکھتا ہو۔ ایسا کرنے کے دو طریقے ہیں پہلا یہ کہ گیس کی کھوج کرنے والی کمپنیوں کو نئی دریافتوں میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف راغب کیا جائے کیونکہ اگر ایسا فوری طور پر نہ کیا گیا تو خود حکومتی اعدادشمار کے مطابق اگر جلد کوئی قابل ذکر (بڑی مقدار میں) گیس دریافت نہ کی گئی تو پاکستان میں اگلی دہائی کے دوران گیس کے موجودہ ذخائر مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ خدانخواستہ ایسا ہونے کی صورت میں گھریلو یا صنعتی گیس صارفین کو ایک منٹ بھی گیس فراہم نہیں کی جاسکے گی اور گیس کا پورا نیٹ ورک زمین بوس ہو جائے گا! یکساں باعث ِتشویش بات یہ ہے کہ پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے شعبے میں سرمایہ کاری میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی نہ ہونے برابر ہے اور اِس کی واضح وجوہات میں سیاسی عدم استحکام کا بڑا عمل دخل ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے مسلسل سیاسی عدم استحکام‘ حکومتی پالیسیوں میں وقتاًً فوقتاً ردوبدل سے پیدا ہونے والے تضادات‘ حکومتی معاہدوں کے کمزور نفاذ اور امن و امان (سیکورٹی) کی خراب صورتحال کی وجہ سے سے پیدا ہونے والے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور یہ خطرات مستقبل قریب میں حل ہوتے دکھائی بھی نہیں دے رہے۔ عالمی سطح پر تیل و گیس کی کھوج میں مہارت و سرمایہ کاری کرنے والی معروف بین الاقوامی پٹرولیم کمپنیاں پاکستان آنے کی بجائے ایسے ممالک کو ترجیح دیتی ہیں جہاں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی خراب صورتحال سے جڑے خطرات (رسک) کم ہوں۔ اِن حالات میں پاکستان کے فیصلہ سازوں کے سامنے مائع گیس (ایل این جی) کی درآمد کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں رہ جاتا۔ سال دوہزارپندرہ میں پاکستان کا پہلا ’آر ایل این جی‘ ٹرمینل قائم ہوا تھا لیکن درآمد پر انحصار وقت کے ساتھ کم ہوتا رہا کیونکہ یہ شروع دن سے پائیدار نہیں تھا اور پاکستان کو ہمیشہ خریدی گئی گیس کی ادائیگیوں میں عدم توازن کا سامنا رہتا تھا۔ یہ مشکل تبھی حل ہو سکتی ہے جب گیس کی مقامی قیمت اور بین الاقوامی قیمت کے درمیان فرق ختم کیا جائے۔ معاشی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں کہ مہنگے داموں خریدی گئی گیس سستے داموں فروخت کی جائے‘ جیسا کہ ماضی میں ایک تجربہ کر کے دیکھا گیا۔ موجودہ صورتحال میں تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش اور اِس شعبے میں تحقیق و ترقی کے لئے اپنی جامعات اور اپنے نوجوانوں کی ذہانت‘ صلاحیتوں اور جذبے پر بھروسہ کرنا ہوگا اور حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جسے تدبر اور دانش مندی سے منصوبہ بندی کرکے حل نہ کیا جاسکے۔