پہلی برسرزمین حقیقت: پاک اور افغان چمن بارڈر پر 13 نومبر سے معطل تجارتی سرگرمیاں 22 نومبر کے روز بحال ہونے کے ساتھ ’فرینڈشپ گیٹ‘ کے ذریعے نقل و حمل اور نقل و حرکت (آمدورفت) بحال ہو گئی ہے۔ تیرہ نومبر کے روز سرحد اُس وقت غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دی گئی تھی جب افغانستان کی جانب سے ایک مسلح شخص نے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی‘ جس کے نتیجے میں ایک فوجی شہید اور دو زخمی ہو گئے تھے۔ سرحد دوبارہ کھولنے کا فیصلہ چمن میں پاکستانی سرحدی حکام اور طالبان حکام کے درمیان اجلاس میں کیا گیا۔ اِس موقع پر چمن کے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید زہری کے ساتھ افغان حکومت کے نمائندوں نے آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی یقین دہانی کروائی اور افغان حکومت نے پاکستان کو اِس بات کا بھی یقین دلایا ہے کہ فائرنگ میں ملوث دہشت گرد کو جلد از جلد گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا لیکن ماضی میں بھی اِس طرح کے افسوسناک واقعات پیش آتے رہے ہیں جن سے عیاں ہے کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال پر طالبان حکمرانوں کا زیادہ کنٹرول نہیں ہے اور دوسری اہم بات افغانستان میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں اور اِن دونوں امور کا درپردہ محرک بھارت کی دخل اندازی ہے جو افغان سرزمین اور وسائل پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ چمن بارڈر (بلوچستان) کی طرح طورخم بارڈر (خیبرپختونخوا) کے راستے بھی پاک افغان تجارت کی راہ میں مسائل و مشکلات آڑے آ رہی ہیں۔ بائیس نومبر کے روز طورخم میں پاک افغان حکام کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں ’طورخم بارڈر کراسنگ‘ کے ذریعے گاڑیوں کی آمدورفت کو آسان بنانے کے لئے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز رضوان و دیگر حکام‘ میجر شرجیل فرمان‘ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر‘ پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے نمائندوں اور تاجروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں افغانستان کی جانب سے قاری ثابت اللہ‘ افغان طورخم بارڈر سیکیورٹی انچارج مسلم خاکسار‘ افغان کسٹم منیجر امین اللہ حجر اور دیگر حکام نے شریک ہوئے۔ پاک افغان چیمبر کے نمائندوں نے افغان حکام سے کہا کہ وہ پاکستان کو کوئلے کی برآمد میں اضافہ کریں اور اِس پر عائد ٹیکس کی شرح کم کریں۔ افغان حکام نے یقین دلایا کہ وہ اِس مطالبے پر غور کریں گے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ دونوں اطراف نے مال بردار گاڑیوں کی کلیئرنس تیز کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔ پاکستانی سرحدی حکام نے افغان پولیس اور سرحدی سیکورٹی اہلکاروں کی منشیات کی روک تھام اور بچوں سے مزدوری کرانے والوں کی حوصلہ شکنی کی کوششوں کی تعریف کی اور اِس موقع پر پاک افغان حکام کے درمیان دوطرفہ تجارت بڑھانے پر اتفاق ایک ایسا خوش آئند اقدام ہے‘ جس سے خیبرپختونخوا بھرپور فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔دوسری برسرزمین حقیقت:پاکستان کو اپنی قومی سلامتی پالیسی کی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس میں افغانستان اور پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین سے متعلق فیصلہ سازی بھی شامل ہونی چاہئے اور یہ جیو اکنامکس اور علاقائی رابطوں پر بھی مرکوز و منحصر ہونی چاہئے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں تخلیقی اور خود مختار ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ معاشی کامیابی و معاشی مستقبل میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ کئی دہائیوں سے سننے میں آرہا ہے کہ پاکستان کی اہم جغرافیائی حیثیت ہے اور اگر پاکستان اپنی ’جیو اکنامکس حیثیت‘ کو درست طریقے سے استعمال کرتا ہے تو یہ مستقبل میں معاشی طاقت بن کر اُبھرے گا۔ اگر یہ درست ہے تو اب تک اِس پالیسی کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ کیوں برآمد نہیں ہوا؟ پاکستان کے پڑوسی ہیں بھارت‘ ایران‘ چین اور افغانستان جیسا کہ ہم نے امریکہ اور یورپی یونین کی اقتصادی کامیابیوں سے سیکھا ہے‘ پڑوسیوں کے ساتھ کھلی اور آزاد تجارت ہونی چاہئے جو اُن کلیدی پالیسیوں میں سے ایک ہے جو لوگوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کا باعث بنتی ہے۔ بھارت میں اِس وقت ایک ہندو فاشسٹ حکومت ہے جس سے کسی بھی قسم کے تجارتی مذاکرات بے سود ہوں گے۔ ایران عالمی اقتصادی پابندیوں کے دور سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے ایران کے ساتھ طویل المدتی تجارتی پالیسیوں کو آگے بڑھانا مشکل ہے۔ چین ہر موسم کا دوست ہے جس نے ’سی پیک‘ کے ذریعے پاکستان کی مدد کی ہے اور چین ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے علاقائی رابطوں کے فروغ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے‘ جس سے خطرے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی مستفید ہو رہا ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا سی پیک منصوبوں کا نتیجہ مستقبل میں پاکستان کے لئے بڑے معاشی منافع کا باعث بنے گا یا نہیں۔ افغانستان کی حیثیت بھی چین کی طرح پڑوسی ملک سے زیادہ بڑھ کر ہے جو پاکستان کو وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی دے سکتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان جو ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت اقتصادی ترقی میں پیچھے ہیں‘ افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کے ساتھ تجارتی راہداری سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور اِس سلسلے میں ایک تاریخ رقم ہے کہ کس طرح وسط ایشیا سے تجارتی قافلے پشاور کے راستے برصغیر اور چین کا سفر کیا کرتے تھے۔ ضرورت طورخم اور چمن سے براستہ کابل ’موٹر ویز‘ اور ریلوے لنک کو وسط ایشیا سے آنے والی شاہراہ اور ریلوے لائن سے منسلک کرنے کی ہے۔ پاکستان کو افغان طالبان حکومت کی مدد کرتے ہوئے ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کی طرز پر قومی ڈیٹابیس بنانی چاہئے اور اگر ایسا کر لیاگیا تو پاک افغان سرحدی آمدورفت اور تجارت بڑی حد تک منظم و شفاف ہو جائے گی۔ وسط ایشیا میں گیس کے ذخائر سے بذریعہ پائپ لائن پاکستان فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو ’ایل این جی درآمدی معاہدوں کے مقابلے‘ پاکستان کے توانائی بحران کا پائیدار اور سستا حل ہوگا۔