گندم قومی خوراک کا بنیادی جز اُور ملک کی آبادی کے بڑے حصے کے لئے کیلوریز کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔ ہماری خوراک گندم کی چپاتی (روٹی) کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ پاکستان میں فی کس گندم کی ضرورت اوسطاً ایک سو بیس یا پچیس سالانہ ہے اور اِس تناسب سے بائیس کروڑ (دوسوبیس ملین) افراد کے لئے سالانہ تیس ملین میٹرک ٹن سے زیادہ گندم کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی معیشت کو بھی دیکھا جائے تو یہ گندم کے آٹے کی سستی فراہمی کے گرد گھومتی ہے۔ یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ حکومت کی جانب سے کم نرخوں (سبسڈی) پر آٹا ایک غریب اور فائیو سٹار ہوٹل کو یکساں نرخوں پر فراہم کیا جاتا ہے! جس کا مطلب یہ ہے کہ زرعی پیداواری ضروریات ہوں یا زرعی پیداوار پاکستان کی زرعی ترجیحات اخذ کرنے والوں نے زیادہ محنت نہیں کی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان نے گزشتہ بیس ماہ کے دوران گندم کی درآمد پر 2 ارب ڈالر سے زائد خرچ کئے ہیں۔پاکستان میں اکیس سے بائیس ملین ایکڑ پر گندم کاشت ہوتی ہے جس سے اوسطاً تقریباً چھبیس سے ستائیس میٹرک ٹن گندم حاصل ہوتی ہے (ایک میٹرک ٹن پچیس من وزن کے مساوی ہوتی ہے۔) گندم کا رقبہ تیلدار بیجوں کی فصلوں کے مقابلے کم ہو رہا ہے اور سیلاب کی وجہ سے اس میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان نے گندم کی ایسی پیداوار بھی دیکھی ہے جب ملکی سالانہ ضرورت سے زیادہ گندم پیدا ہوئی اور اسے ’سبز انقلاب‘ کہا گیا۔ پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار جو عموماً 8 ہوا کرتی تھی جدید زرعی ٹیکنالوجی اختیار کر کے 30 من فی ایکڑ تک پہنچا دی گئی اور آج پچاس فیصد کاشتکار جدید طریقوں سے کاشتکاری کرتے ہیں لیکن اِن کا تناسب پچاس فیصد یا اِس سے کم ہے۔ روائتی طریقوں سے گندم کی کاشت کرنے والے کاشتکاروں کی آج بھی اکثریت ہے۔ اِسی طرح گندم کی پیداوار میں بین الصوبائی اور بین الاضلاع فرق بھی واضح ہے جو کہ نہیں ہونا چاہئے۔ پیداوار میں فرق بڑی حد تک ٹیکنالوجی کو اپنانے سے گریز یا اِسے نامکمل اپنانے کی وجہ سے ہے۔ اس میں صحیح مقدار میں بروقت زرعی آپریشن (بوائی اور آبپاشی‘ کھاد اور جڑی بوٹیوں کی تلفی) جیسے عوامل شامل ہیں۔ ایک اہم عنصر فصل کی قسم اور درست (معیاری) بیج کا انتخاب بھی ہے اگرچہ زرعی ٹیکنالوجی ’آف دی شیلف‘ جمود توڑنے کے لئے کافی ہے لیکن کئی بار صرف آگاہی ناکافی ہوتی ہے۔ مارکیٹ کے اشارے‘ منافع‘ بشمول کم از کم سپورٹ پرائس ٹیکنالوجی کو اپنانے میں مدد اُور اِس کے فروغ کا باعث بھی بنتی ہے۔ مکئی کی فصل کی کامیابی مارکیٹ کی طرف سے ’اسکیل نیوٹرل ٹیکنالوجی‘ اپنانے کی وجہ سے ہے۔ چاول میں ٹیکنالوجی اپنانے کا عمل بھی تیزی سے ہو رہا ہے۔ گندم کے لئے یہ تبدیلی ابھی باقی ہے۔ صوبہ سندھ کی جانب سے چار ہزار روپے فی چالیس کلوگرام کم از کم امدادی قیمت کا اعلان بھی اپنی جگہ اہم ہے۔رواں برس (دوہزاربائیس) کے لئے ”گندم مہم“ اٹھائیس اکتوبر سے جاری ہے اور یہ مہم جوئی آئندہ چند روز (رواں ماہ نومبر کے آخر) تک جاری رہے گی۔ یہ ”گندم مہم 2021ء کا تسلسل ہے۔ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی نے پچاس ہزار سے زائد طلبہ کو 10دنوں کے لئے شہری و دیہی علاقوں میں بھیجا تاکہ یہ گھر گھر جا کر ’غذائی عدم تحفظ (فوڈ سیکیورٹی چیلنجز)‘ کے حوالے سے خاص و عام کی معلومات میں اضافہ کریں۔ اِس بڑی سرگرمی کے لئے تدریسی سرگرمیاں 10 روز کے معطل رکھی گئیں اُور یونیورسٹی کے ایک ہزار سے زیادہ تدریسی عملے کو بھی طلبہ کی طرح فیلڈ میں بھیجا گیا۔ اگر فیصل آباد کی طرح خیبرپختونخوا کی جامعات بالخصوص ایگری کلچر یونیورسٹی اُور محکمہئ زراعت کے ملازمین کی خدمات ’غذائی تحفظ کو درپیش چیلنجز‘ سے متعلق عوامی شعور اُجاگر کرنے کے لئے بروئے کار لایا جائے تو یقینا اِس کے بہتر (مثبت) نتائج برآمد ہوں گے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اُور کم ہوتی زرعی پیداوار ایسے چیلنجز ہیں جن سے متعلق سوچ بچار اُور بات چیت کا عمل معاشرے کی ہر سطح پر ہونا چاہئے۔ اگر قومی فیصلہ ساز یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر سال اربوں ڈالر کی گندم درآمد کر کے ضرورت (طلب) پوری کرتے رہیں گے تو یہ حکمت عملی پائیدار ثابت نہیں ہوگی اُور جلد ہی وہ وقت بھی آ جائے گا جب گندم کی مہنگے داموں درآمد اُور عوام کو سستے داموں فراہمی ممکن نہیں رہے گی۔ غذائی خودکفالت اُور غذائی خودانحصاری کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ گندم اُگائی جائے اُور موسمیاتی تبدیلیوں کومدنظر رکھتے ہوئے گندم کو ذخیرہ رکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا جائے۔