اب کے جانے کیا ہوا کہ نومبر اپنے اوائل ہی سے دسمبر کی چال چلنے لگا تھا ایک دو معمول کی بارشیں ضرور ہوئیں جو ’کاتک‘ میں ہوتی ہیں اور ان بارشوں سے موسم میں ایک خوشگوار سی خنکی ضرور پیدا ہوتی ہے جس سے خزاں میں بہار کا سا سماں بن جاتا ہے مگر اب کے ایسا کچھ نہ تھا اور نومبر نے دسمبر کی چادر اوڑھ کر یار لوگوں کو بھی گرم کپڑے نکالنے پر مامور کر دیا، نومبر کی صبح اور شام نے تو مجھے بچپن اور لڑکپن کی گاؤں میں گزاری ٹھٹھرتی جنوری کی صبحیں یاد دلا دیں، جاڑے کی شام کا کہر اور رات کو پڑنے والے پالا کا سوچ کر بھی ہم کانپ جاتے تھے،جب ہم سکول جاتے تو پالا پڑنے کی وجہ سے راستے میں جگہ جگہ کھڑے پانی پر شفاف برف کی ایک مہین سی تہہ جمی ہو تی جس پر ہم اپنی تختی سے ہلکی ضرب لگاتے تو برف کا وہ شیشہ چٹخ جاتا اور اس پر بننے والی لکیریں طرح طرح کی شکلیں بناتیں یہ ایک مشکل اور نازک سا کام تھا کیونکہ جب بھی تختی کی ضرب ذرا زیادہ پڑتی تو برف کا وہ شیشہ (جسے ہم ”ککر“ کہتے تھے) ٹوٹ جاتا،حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ بچپن کا وہ کھیل تو وہیں رہ گیا مگر اب وہ کھیل ایک آرٹ بن گیا اور اس فن کے ماہر کاریگربڑی بلڈنگز کے شیشوں کو اس طرح چٹخا کر شیشوں پر لکیروں کا جال بنا دیتے ہیں یہ ایک الگ سے آرٹ ہے جو دیکھنے میں بھی اچھا لگتا ہے اور اس طرح شفاف شیشے کے آر پار دیکھا بھی نہیں جا سکتا‘ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ”ہو گئی ہے“ کل تک حسن ترتیب میں ہوا کرتا تھا اور اب اسے بے تر تیبی میں ڈھونڈا جاتا ہے، خیر اب زندگی کے طور طریقوں میں بہت بدلاؤ آ گیا ہے، مجھے یاد ہے کہ جب سردی بڑھ جاتی تو ہم اکثر دو دو قمیصیں پہن کر سکول جاتے جس پر کبھی کبھی ایک ہلکا سا سویٹر بھی پہنے کو مل جاتا،گاؤں میں سردی سے بچنے کے لئے چادرسے بہترکوئی چیز نہیں مگر سکول نہیں لے جاسکتے تھے،دوسرے دیہات اور قصبات سے سائیکل پر آنے والے لڑکے چادر ہی اوڑھتے مگر سائیکل سٹینڈ میں چادر چھوڑ جاتے، ہمارے سکول میں ایک لڑکا ایسا بھی تھا جو محض ایک ہی قمیص میں آتا، یہ لڑکا میرے کلاس فیلو زاہد حسین کے بڑے بھائی امداد حسین تھے، زاہد ہمیشہ اچھے اور گرم سویٹرپہن کر آتا اور یقیناً امداد حسین کے پاس بھی سویٹرز اور کوٹ جیکٹس کی کمی نہ تھی کیونکہ وہ کرنل سردار حسین کے بیٹے تھے اور ایک بنگلہ میں رہتے تھے، اس کے باوجود میں نے سخت سردی میں بھی امداد حسین کو سکول میں ہمیشہ ایک ہی قمیص میں دیکھا، وہ بلا کا خوب صورت، خوش مزاج نوجوان ہم سب کا بہت اچھا دوست بھی تھا، جب ہم دسویں کلاس پہنچے تو ایک بار محلے کے ہم سب دوستوں نے مل کر نوشہرہ جا کر فلم دیکھنے کا پروگرام بنایاتو امداد کو بھی ساتھ جانے پر آمادہ کر لیا،ہم سائیکلوں پر نوشہرہ گئے اور رات کو جب واپس گاؤں آ رہے تھے تو میری سائیکل کی چین تھوڑی تھوڑی دیر بعد گرنا شروع ہو گئی تھی، اس دن پہلی بار میں نے دیکھا کہ مجھ سے بھی زیادہ پریشان امداد تھا وہ میری سپیڈ پر میرے ساتھ ساتھ جا رہا تھا اور چین اترنے پر فوراً اپنی سائیکل سے اتر کر آتا اور چین ٹھیک کر دیتا، سب دوستوں کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی گھر سے پوچھ کر نہیں آیا تھا اور نہ پوچھنے کی ایک ہی وجہ تھی کہ پھر ہمیں ویسے بھی فلم دیکھنے کی اجازت قطعاً نہ ملتی اور پھر چھے سے نو بجے والا شودیکھنے کا مطلب رات دیر سے گھر آنا تھا مگرہم چھے سات دوستوں میں سے صرف امداد ہی تھے جو میری مدد کر رہا تھا‘ باقی میری سائیکل کو کوس رہے تھے اس دن مجھے امداد بہت اچھے لگے تھے، وہ بہت کم ہمارے گروپ میں بیٹھتے تھے مگر جب پشاور سے جہانزیب سہیل اور خالد رؤف آتے توہم اکثر جہانزیب سہیل سے ماؤتھ آرگن پر گانے سنتے اور خالد رؤف سے ہم مہدی حسن کی گائی ہوئی ٖفیض کی غزل ”گلوں میں رنگ بھرے باد ِ نو بہار چلے“ سنا کرتے تو امداد حسین بھی آ جاتے،اس وقت ہم سب طالب علم تھے بعد کے زمانوں میں جہانزیب سہیل پاکستان ٹیلی ویژن کا مایہ ناز پروڈیوسر بنا، فتح محمد فوج میں چلا گیا، زاہد حسین ڈاکٹر بن گیا اب یو کے میں ہے، طاہر پہلے پولیس میں اور بعد میں کینیڈا شفٹ ہو گیا، خالد رؤف انجینئر بن کر کینیڈا چلا گیا اور اپنی فیلڈ کا ایک بڑا نام بن گیا جس کے کریڈٹ پر پاکستان سمیت کئی ممالک کے بڑے پراجیکٹ ہیں پشاور کی زرعی یونیورسٹی کی نئی خوبصورت بلڈنگ اور اسلام آباد سے لاہور تک کا موٹر وے بھی اس کا ہی ڈیزائن کردہ ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ خالد رؤف ایک ناو ل نگار اور ایک عمدہ شاعر بھی ہے جس کے کئی ایک مجموعے شائع ہو کر ادبی حلقوں سے پذیرائی حاصل کر چکے ہیں، سوچتا ہوں اس ایک گلی سے جانے کتنے راستے تھے جن پر چلتے ہوئے سب دوست ایک دوسرے کے معمولات سے بے خبر ہو گئے، ایک خالد رؤف ہے جو بچپن کی دوستی اور محبت کی ڈوری سے بندھا ہوا سب دوستوں کی خبر رکھتا ہے اور ملنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے اور جب بھی ملتا ہے اپنی گڈری سے بیتے ہوئے وقت کی ساری مٹھاس نکال کر میز پر رکھ دیتا ہے، البتہ امداد حسین کی کمی سب دوست محسوس کرتے ہیں، وہ ہم سب دوستوں سے عمر میں بڑے تھے مگر اس کے باوجود ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بہت بنتی تھی‘ میں انہیں الٹے سیدھے شعر سناتا تھا، ایک بار اسے اپنی ہمشیرہ کو لے کر کیمبل پور کالج امتحان کے لئے جانا تھا۔ گاؤں کی تہذیب کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جب آپ بہ امر مجبوری اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ کہیں جا رہے ہوتے ہیں تو نظریں جھکا کر چلتے ہیں اور کوئی جاننے والا ایسے میں آپ کو سلام تک نہیں کرتا کہ آپ کے ساتھ خواتین ہیں مگر مجھے امداد نے کہا کہ ”باد شاہوآؤ(گاؤں میں سادات کو بادشاہ کہا جاتا ہے) ذرا ہمشیرہ کو کیمبل پور کالج تک لے کر جاتے ہیں، ہم ٹرین سے گئے تھے اور اسے چھوڑ کر آگئے تھے ٹرین میں ہی میں نے ان سے پوچھا تھا کہ سکول میں سردیوں کے دنوں میں آپ کیوں ایک ہی قمیص میں آتے تھے، کہنے لگے رہنے دو یار،میں نے اصرار کیا تو کہا‘ میرے ساتھ محلے کے فلاں فلاں لڑکے سکول جاتے تھے اور ان کے پاس پہننے کو کوئی سویٹر نہیں تھا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ میں سویٹر پہن کر جاؤں، اگر چہ اب تو اسے بچھڑے ہوئے ایک زمانہ ہوگیا ہے لیکن جب بھی سردی آتی ہے (اور اب کے تو نومبر ہی میں سردی نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں) تو مجھے امداد حسین یاد آتا ہے، امداد حسین جو کرنل کا بیٹا تھا، جو بلا کا خوبصورت تھا جو وجیہہ و جمیل تھا اور وہ جواں رعنا جب ہنستا تو جیسے سارا ماحول ہنسنے لگتا، جو دوستوں کا دوست اور ان کا غمگسار تھا جو پھر نوشہرہ کی ایک فیکٹری میں ایک اہم عہدہ پر تعینات تھا،کیا آپ مانیں گے کہ وہ شریف الطبع بھر پور جوانی میں ایک ایسی ہی خنک رات نوشہرہ سے گاڑی میں گاؤں آتے ہوئے کسی سفاک کی گولی کا نشانہ بن گیا۔عرفان ستار نے کیا خوب کہا ہے۔
سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گُم ہو گیا ہے
بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے