گیم ’آن‘ ہے!

فٹ بال کا بخار دنیا کے سر چڑھ کر بول رہا ہے لیکن قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ کے دلچسپ مقابلوں میں پاکستان کی قومی ٹیم کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے ارجنٹائن کے خلاف سعودی عرب اور جرمنی کے خلاف جاپان کی جیت جیسے بڑے اپ سیٹس نے اُن تمام ٹیموں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو عالمی مقابلوں سے قبل سوچ رہی تھیں اور اِس زعم میں مبتلا تھیں کہ یہ ایشیائی ٹیموں پر حاوی ہوں گی اور ہمیشہ کی طرح فائنل یورپ اور جنوبی امریکہ کے درمیان ہوگا پاکستان میں بھی فٹبال کھیلا اور پسند کیا جاتا ہے لیکن تاحال پاکستان کی قومی فٹ بال ٹیم اُس مقام پر نہیں پہنچی جہاں یہ عالمی مقابلوں کا حصہ بن سکے تاہم فیفا ورلڈ کپ میں پاکستان کی موجودگی اگر کھلاڑیوں اور ٹیم کی صورت نہیں تو کئی دوسرے حوالے سے پاکستان بھی فیفا ورلڈ کپ کا حصہ ہے جیسا کہ پاکستان کا نام اُن 13ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو اِن مقابلوں (چیمپئن شپ) کے حفاظتی دستوں میں شامل ہیں یہ اعزاز اپنی جگہ کتنا اہم ہے یہ جاننے کے لئے سکیورٹی فراہم کرنے والے دیگر ممالک کی فہرست دیکھیں جس میں برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ اردن‘ کویت، فلسطین‘ پولینڈ‘ سعودی عرب‘ اسپین‘ ترکی اور امریکہ شامل ہیں‘ پاکستان کا ’سکیورٹی دستہ‘ چار سے زائد فوجی‘ فضائیہ اور بحری اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ پاکستان دوحا میں سکیورٹی فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے اور اس کے سکیورٹی اہلکاروں کے فرائض میں چیمپئن شپ سے منسلک سٹیڈیمز اور دیگر اہم سہولیات بشمول مہمان اور میزبان ٹیموں کی حفاظت شامل ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی ٹیم کو قطر میں تعیناتی سے قبل مقامی اور غیر ملکی ماہرین نے خصوصی تربیت دی تھی۔ یہ ایسا پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کسی عالمی ایونٹ میں سکیورٹی فراہم کر رہا ہے بلکہ عالمی قیام امن کی کوششیں ہوں یا فٹ بال مقابلے پاکستان کی انتہائی منظم افواج کو ہمیشہ نہ صرف طلب کیا جاتا ہے بلکہ دیگر ممالک پر ترجیح بھی دی جاتی ہے سال دوہزارچودہ اور دوہزاراٹھارہ کے فٹ بال مقابلوں میں بھی پاکستان کے فوجی اہلکاروں نے سکیورٹی کی ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔ پاکستان کے لئے دوسرا اعزاز ’فٹ بال‘ کی تیاری ہے جو عالمی مقابلوں کے لئے استعمال ہو رہا ہے اور یہ فٹ بال ’سیالکوٹ‘ میں تیار کئے جاتے ہیں جو دنیا بھر میں کھیلوں کے سازوسامان کی تیاری کے لئے مشہور ہے۔ فیفا ورلڈ کپ کے لئے ہمیشہ 2 ممالک سے فٹ بال تیار کروائے جاتے ہیں۔ اِس مرتبہ پاکستان کے ساتھ چین کو فٹ بال تیار کرنے کا آرڈر ملا چونکہ پاکستان فٹ بال کی تیاری میں استعمال ہونے والا 80 فیصد سازوسامان چین سے درآمد کرتا ہے اِس لئے چین کی فٹ بال ساز صنعت کا مقابلہ قیمت میں نہیں کر سکتا لیکن معیار کے لحاظ سے پاکستان میں بنے ہوئے فٹ بال چین سے بہتر ہوتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان نے ورلڈ کپ مقابلوں کے لئے 3ہزار فٹ بال تیار کئے۔ یہ فٹ بال صرف مقابلوں میں استعمال ہونے ہوتے بلکہ اِن مقابلوں کو دیکھنے کے لئے آنے والے شائقین کی ایک تعداد
 انہیں سوغات کے طور پر ساتھ لے جاتی ہے اور دنیا میں فٹ بال کے ایسے شائقین بھی پائے جاتے ہیں جن کے پاس عالمی مقابلوں سے جڑی اشیا (کی کلیکشن) خاص معنی اور قدر و قیمت رکھتی ہے ’میڈ اِن پاکستان‘ فٹ بال اعزاز کی بات ہے لیکن کھیل کا سازوسامان تیار کرنے والی صنعتیں خاطرخواہ مراعات یافتہ نہیں۔ فیفا ورلڈ کپ کے لئے فٹ بالز کی تیاری کے علاؤہ پاکستان سے اِن ممالک میں شرکت کرنے والے ممالک کے لاکھوں جھنڈے بھی برآمد کئے جاتے ہیں جنہیں مقابلوں میں استعمال کرنے کے علاؤہ ’یادگاری اشیا‘ کے طور پر خریدا جاتا ہے۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اگرچہ پاکستان کی فٹ بال ٹیم عالمی مقابلوں کا حصہ نہیں لیکن پاکستان میں تیار ہوئی مصنوعات دنیا بھر سے آئے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔فٹ بال کی برصغیر پاک و ہند میں ایک طویل تاریخ تھی۔ یہ کھیل اُنیسویں صدی کے وسط میں برطانوی راج کے دوران جنوبی ایشیا میں متعارف کرایا گیااور اِس نے جلد ہی دیگر کھیلوں کے مقابلے اپنی جگہ بنا لی۔ برطانوی برصغیر پر فٹ بال کے اتنے گہرے اثرات مرتب کر گئے کہ انگلش ایف اے کپ اور سکاٹش ایف اے کپ کے بعد تیسرا قدیم ترین فٹ بال مقابلہ ڈیورنڈ کپ ہے جو اپنے افتتاح کے بعد سے اب تک ہر سال برصغیر میں ہوتا ہے اور یہ پہلی مرتبہ 1888ء میں ہوا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ فیفا کے زیر اہتمام پہلی قومی فٹ بال چیمپئن شپ سال 1948ء کے دوران کراچی میں منعقد ہوئی تھی‘ جس میں سندھ ریڈز
 نے ٹورنامنٹ کے فائنل میں سندھ بلیوز کو شکست دی تھی! یقینا قارئین کو یاد ہوگا کہ پاکستان اور کئی ممالک میں فٹ بال ننگے پاؤں کھیلا جاتا تھا اور ایک وقت وہ بھی آیا جب برصغیر کے کھلاڑیوں کو فٹ بال کے عالمی مقابلے کھیلنے پڑے تو اُنہیں ننگے پاؤں کھیلنے کی اِس قدر عادت تھی کہ اُن کے لئے بوٹ پہن کر کھیلنا محال تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارتی فٹ بال ٹیم نے برازیل کا دورہ کیا جہاں 1950ء کے ورلڈ کپ میں شرکت کے لئے اِسے مدعو کیا گیا تھا۔ بھارتی فٹ بال ٹیم کے لئے یہ پابندی ناقابل قبول تھی کہ وہ جوتے پہنے جیسا کہ اُس کی حریف ٹیم کے کھلاڑیوں نے جوتے پہن رکھے تھے۔ تب احتجاج کیا گیا جو بے سود رہا۔ ان کی حریف ٹیم کو نہ صرف جوتے پہننے کی اجازت دی گئی بلکہ بھارت کے لئے جوتے پہنے بغیر کھیلنے کی بھی ممانعت تھی۔ پاکستان کی فٹ بال ٹیم بھی اپنے دور کی یادگار ٹیموں میں شامل رہی ہے بالخصوص جب ایران کے بادشاہ کی سالگرہ کی تقریبات کے موقع پر پاکستانی ٹیم نے مقابلہ ننگے پاؤں کھیلنے کی درخواست کی تو اُسے قبول کر لیا گیا تھا اور شاہ اور ان کے خاندان نے پورے میچ کو حیرانی کے ساتھ دیکھا کیونکہ پاکستان مقابلے میں پانچ ایک سے ہار گیا تھا۔ پاکستان کو سال 2026ء (آئندہ) فٹ بال ورلڈ کپ کھیلنے کی تیاری کرنی چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اگر ابھی سے تیاری شروع کی جائے تو ’دوہزارچھبیس‘ کی بجائے ’دوہزارتیس‘ میں ایسا ممکن ہو سکتاہے۔ فٹ بال سے متعلق عالمی سطح پر امور دیکھنے والی تنظیم ’فیفا‘ نے پاکستان میں فٹ بال کی نمائندہ تنظیم ’پی پی ایف‘ پر پابندی عائد کی تھی۔ یہ پابندی اپریل 2021ء میں ختم کی گئی لیکن اِس کے بعد فٹ بال کا کھیل منظم نہیں ہوسکا۔ پاکستان کی بین الاقوامی فٹ بال مقابلوں میں واپسی کے لئے جو شرائط عائد کی گئی ہیں وہ FATF (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی گرے لسٹ سے نکلنے جیسی سخت ہیں اور اِن میں ایک آزاد و بنا متنازعہ قومی فٹ بال تنظیم کے قیام کی شرط شامل ہے جو نارملائزیشن کمیٹی کے مینڈیٹ کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ پی ایف ایف کے دوبارہ معطل ہونے یا فیفا کے قواعد کے تحت دیگر پابندیوں سے نکلنے کے لئے حکومت کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ پاکستان کے لئے آنے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں کھیلنے کا امکان اِس لئے بھی موجود ہے کیونکہ سلور لائننگ کے طور پر دوہزارچھبیس سے یہ عالمی مقابلہ اڑتالیس ٹیموں تک بڑھا دیا جائے گا جس سے پاکستان کو کوالیفائی کرنے کا اچھا موقع مل سکتا ہے۔ پاکستان میں فٹ بال کے فیصلہ سازوں کو قومی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے اِس امکان بارے غور کرنا چاہئے اور صرف فٹ بال مقابلوں کی سکیورٹی اُور فٹ بال و دیگر ضروریات کی تیاری ہی نہیں بلکہ فٹ بال مقابلوں میں حصہ لینے سے متعلق بھی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ اہلیت کی کمی نہیں‘ پاکستان ’ٹیم گرین‘ کو بھی فٹ بال کے عالمی مقابلوں کا حصہ دیکھنا چاہتے ہیں۔