استعفوں اور بائیکاٹ کی سیاست 

پی ٹی آئی کی طرف سے تمام اسمبلیوں سے استعفوں کے اعلان کے بعد اس حوالہ سے مشاورتی عمل جاری ہے اور جلدہی حتمی حکمت عملی سامنے آجائے گی کچھ حلقے اس کو ضرورت سے زیادہ سخت فیصلہ قراردے رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز کے متلون سیاسی ماحول میں بعض اوقات انتہائی سخت فیصلے بھی سامنے آتے رہے ہیں کبھی تو حکومت حزب اختلاف کو دبانے کے لیے ماورائے آئین اقدامات سے بھی دریغ نہیں کیا تو کبھی حزب اختلاف نے اس شدت کے ساتھ حکومت مخالف تحریک چلائی کہ اپنے ساتھ جمہوریت کوبھی بہا لے گئی جنرل ایوب خان کے خلاف جب عوامی تحریک پورے عروج پر پہنچی اور ایوب خان کو اپوزیشن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اس کے نتیجہ میں گول میز کانفرنس ہوئی تو ا س موقع پر اپنی فتح کے نشہ میں چور حزب اختلاف نے اپنے مؤقف میں لچک لانے سے انکار کرتے ہوئے ایوب خان کے استعفے کامطالبہ برقرار رکھا چندماہ بعد صدارتی الیکشن ہونے والے تھے صدرایوب خان نے ان میں حصہ نہ لینے کاپیشگی اعلان بھی کردیا مگراپوزیشن کے مؤقف میں لچک نہ آئی جس کے بعدایوب خان نے بھی حساب کتاب برابر کرتے ہوئے جاتے جاتے اقتدار اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کو سپردکرنے کے بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حوالہ کردیا جس کے بعد جو کچھ ہوا ا س پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کاجائزہ لیں تو اس تمام عرصہ میں اپوزیشن کو مسلسل دیوار کے ساتھ لگائے رکھنے کی پالیسی اختیار رکھی گئی بعدازاں جب 1977میں الیکشن ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی این اے نے دھاندلی کاالزام عائد کرتے ہوئے نہ صرف نتائج کو مسترد کردیا بلکہ دوروز بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابا ت کابائیکاٹ بھی کردیا اپوزیشن اراکین نے قومی اسمبلی کی رکنیت کاحلف بھی نہیں اٹھایااورپھر ایک بھرپور تحریک شروع ہوئی جس میں بے گناہوں کاخون بھی بہا بہت تباہی کے بعد مذاکراتی عمل تو شروع ہوا مگر
 معاہدہ کے قریب پہنچنے کے باوجود بعض نکات کی وضاحت کے معاملہ پر دوروزکی تاخیر ہوگئی اور اس کافائد ہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے اقتدارپر قبضہ کرلیا خدا خدا کرکے جنرل ضیاء نے 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا اعلان کیا تواپوزیشن کی بڑی اور اہم جماعتوں پر مشتمل اتحاد ایم آرڈی نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کااعلان کردیا جس کی وجہ سے پھر ملکی سیاست میں پیسے اور برادری ازم کاعمل دخل بڑھ گیا اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتیں ابھی تک باقی ہیں سیاسی مبصرین کے مطابق اگر ایم آرڈی بائیکاٹ نہ کرتی تو آز ادحیثیت میں اپنے لوگوں کو با آسانی ایوانوں میں پہنچا سکتی تھی بائیکاٹ کاسلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا اور جب 1997کے الیکشن ہورہے تھے تو جماعت اسلامی نے آئین کی دفعات باسٹھ تریسٹھ پر عملدرآمدکامطالبہ کرتے ہوئے الیکشن کابائیکاٹ کردیا بعدازاں جب 2002کے انتخابات میں ایم ایم اے کامیاب ہوئی تو جنرل پرویز مشرف کو وردی میں منتخب کرانے کے معاملہ پر اختلافات بڑھ گئے تو اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے چند ہفتے قبل ہی ایم ایم اے کی اہم رکن کی حیثیت سے جماعت اسلامی نے اسمبلیوں سے استعفوں کامطالبہ کیا مگر جے یو آئی نہ مانی جس کے بعدجماعت اسلامی کے اراکین مستعفی ہوگئے اور خیبرپختونخوا اسمبلی کو بھی قبل از وقت تحلیل کرانا پڑا 2008کے الیکشن کامرحلہ سر پر آیا تو اس وقت ا پوزیشن کے واحد اتحاد اے پی ڈی ایم نے جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہوئے بائیکاٹ
 کافیصلہ کیا مگر بعدازاں پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ ن نے یوٹرن لیتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے کافیصلہ کیا جس کی وجہ سے اے پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑ گئی بعدازاں جب 2013ء کے انتخابات ہوئے تو پی ٹی آئی نے دھاندلی کاالزام عائد کرتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسلام آباد میں 126دن کاطویل ترین دھرنابھی دیا کچھ روز بعد اس نے قومی اسمبلی سے استعفوں کااعلان کردیا مگر بعد ازاں یہ استعفے واپس لے لیے گئے 2018کے الیکشن میں ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف نتائج کے دوسرے روز ہی اسلام آبادمیں تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوگئیں اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے تجویز پیش کی کہ قومی اسمبلی کی رکنیت کاحلف نہ اٹھا تے ہوئے بائیکاٹ کیا جائے تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تیار نہ ہوئیں اوریوں اس تجویز پرعمل نہ ہوسکا البتہ حکومت سے مستعفی ہونے کامطالبہ ساڑھے تین سال مسلسل کیاجاتارہا اورجب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پی ٹی آئی نے فوری طورپر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا یہ الگ بات ہے کہ یہ ان میں چند مخصوص اراکین کے استعفے منظور ہوئے باقی مستر د کرد یئے گئے اور اب پی ٹی آئی نے باقی ماندہ اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہونے کااعلان کیاہواہے گویا ہماری سیاسی تاریخ استعفوں اور بائیکاٹ کی داستانوں سے بھری پڑی ہے سیاسی قوتوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ماضی میں استعفوں اوربائیکاٹ کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے سو گذارش ہے کہ سیاسی قوتیں بالغ نظری کامظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روایت کو مضبوط بنائیں کرپشن کے خلاف اور معیشت کی بہتری کے لیے میثاق کیاجائے بصورت دیگر عدم استحکام کی صورت میں تباہ ہوتی معیشت بہت کچھ نگل لے گی فی الوقت تو ایسا دکھائی دے رہاہے کہ پاکستان تحریک انصاف استعفوں کے اعلان سے واپس نہیں ہوگی البتہ استعفے کب دیئے جائیں اور پنجاب و خیبرپختونخوا سمبلیاں کیسے تحلیل کی جائیں گی اس کیلئے حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔