بالاخر وہ معرکہ سر ہو گیا جسے لیکر گزشتہ ایک سال سے بحث و مباحثہ اور قیاس آرائیاں جاری تھیں۔آئین کے تحت پاک فوج کے سپہ سالار کا تقرر وزیراعظم کرتا ہے اور فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر مملکت اس تقرری کی توثیق کرتے ہیں۔لیکن سپہ سالار کا چناؤ وزیر اعظم کا انفرادی فیصلہ نہیں ہوتا۔ عسکری قیادت چند نام وزیراعظم کو بھیجتی ہے اور لامحالہ اس میں میرٹ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔اگرچہ سپہ سالار کے تقرر میں وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کا پابند نہیں ہوتا تاہم ایسا ہوجائے تو سونے پر سہاگہ۔جنرل عاصم منیر کا نام عسکری قیادت نے تجویز کیا تھا۔پی ڈی ایم کے منتخب وزیر اعظم نے اس نام کی منظوری دیدی اور پی ٹی آئی سے سیاسی تعلق رکھنے والے صدر نے اس نامزدگی کی توثیق کر دی۔جس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل عاصم
منیرپر پاک فوج، موجودہ حکومت اور اپوزیشن نے بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے جو پاکستان کے لئے نہایت خوش آئند ہے۔جنرل عاصم منیر اپنی چند غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے انفرادیت کے حامل ہیں وہ پاک فوج کے واحد سپہ سالار ہیں جنہیں اعزازی شمشیر سے نوازا جا چکا ہے۔وہ قرآن پاک کے حافظ بھی ہیں۔عاصم منیر نے 1986میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔انہوں نے فوجی ٹریننگ سکول جاپان، ڈیفنس کالج کوالالمپور ملائشیا، سٹاف کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے تربیت حاصل کی،انہوں نے ڈیفنس یونیورسٹی سے پبلک پالیسی اور سٹریٹجک سیکورٹی منیجمنٹ میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔وہ سٹاف کالج کوئٹہ کے کمانڈر،،ناردرن لائٹ انفنٹری گلگت کے کمانڈر اور 30 کور گوجرانوالہ کے کور کمانڈر رہ چکے ہیں۔جنرل عاصم منیر ملٹری اینٹلی جنس اور انٹر سروسز اینٹلی جنس کے بھی ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں۔انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دونوں اہم خفیہ ایجنسیوں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔وہ جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔وہ ایک اچھے سپورٹس مین، اچھے کتب بین
اور نہایت سلجھے ہوئے آفیسر ہیں۔توقع ہے کہ پاک فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے وہ فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو مزید بڑھانے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔اب اگر بات ہوجائے ملک کے سیاسی حالات کی تو یہاں پرگرما گرمی ہے اور ایک طرف تحریک انصاف اپنے کارڈ کھیلنے کیلئے تیار ہے تو دوسری طرف حکومت بھی جوابی چال چلنے کیلئے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ ان سرگرمیوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ اہم قومی امور پر متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکے‘یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ روس سے سستے تیل اور گندم کی خریدار کیلئے معاملات طے ہونے لگے ہیں اور اس سمت عملی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔