خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان میں تیزرفتار انٹرنیٹ جسے فائیو جی (5G) کہا جاتا ہے‘ فراہم کرنے کے لئے تیاریاں آخری مراحل سے گزر رہی ہیں اور اگر ملک میں سیاسی تبدیلی نہ ہوتی جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی اور معاشی و کاروباری سرگرمیوں کی رفتار سست ہوئی ہے تو اب تک ’فائیو جی ٹیکنالوجی‘ کا اجرأ ہو چکا ہوتا۔ جو موبائل فون کمپنیاں ’فائیو جی‘ میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں اُن کی نئی حکمت عملی یہ ہے کہ فائیو جی کو ملک گیر سطح پر متعارف کرنے کی بجائے اِسے محدود پیمانے پر صرف اُنہی بڑے شہروں میں پیش کیا جائے جہاں کے رہنے والے ’فائیو جی‘ موبائل فون خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ موجودہ سمارٹ فونز زیادہ سے زیادہ ’4-G‘ انٹرنیٹ کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ 5-G کی صلاحیت رکھنے والے موبائل فون اِن سے الگ (زیادہ جدید) ہوتے ہیں۔ اِس مرحلہئ فکر پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ’فائیو جی ٹیکنالوجی‘ کئی قسم کے ’بینڈز (Bands)‘ پر مشتمل ہوتی ہے اور تاحال یہ بھی طے نہیں ہوا کہ پاکستان میں ’فائیو جی‘ کا کونسا بینڈ (قسم) متعارف کروایا جائے گا اِس لئے جو صارفین ’فائیو
جی‘ فون سیٹ خرید رہے ہیں اُنہیں چاہئے کہ جلدبازی نہ کریں کیونکہ عین ممکن ہے کہ بیرون ملک سے درآمد شدہ یہ موبائل فونز اُن کے کسی کام نہ آئیں اور اُنہیں پھر سے کم از کم ساٹھ ستر ہزار روپے مالیت کا ایک نیا ’فائیو جی‘ فون خریدنا پڑے۔فائیو جی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کا اتفاق ہے کہ وہ ابتدا میں ملک کے 4 بڑے شہروں سے اپنی خدمات کا آغاز کریں گی جبکہ اس سروس کو سپورٹ کرنے کے لئے پورے شہر میں ’فائبر کیبلز‘ کا نیٹ ورک بچھایا جا رہا ہے۔ مختلف موبائل فون کمپنیاں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ ہیں اور اُن کے درمیان اِس ایک نکتے پر اتفاق بھی پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں صرف ’فائیو جی‘ خدمات کا آغاز کرنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اِس کے ساتھ ’فائیو جی‘ کو استعمال کرنے والی ٹیکنالوجی اور متعلقہ انفراسٹرکچر کے ساتھ ایک ایسا قابل بھروسہ ماحول بھی بنانا ہوگا‘ جس میں ’فائیو جی‘ ٹیکنالوجی سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ صرف تیزرفتار انٹرنیٹ متعارف کرنا اور اِسے حاصل کرنا ہی کافی نہیں لیکن اِس کے وسیع امکانات کو بھی پیش نظر رکھنا بھی یکساں اہم و ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ ’ڈیجیٹل پاکستان‘ کے حوالے سے گزشتہ تین برس میں ہونے والی پیش رفت زیادہ خوش آئند نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ’فائیو جی‘ کے آغاز کو ہر چھ ماہ بعد مزید چھ ماہ کے لئے ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان میں انٹرنیٹ کی 4-G ٹیکنالوجی کو دیکھا جائے تو جس سست روی سے یہ آگے بڑھی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے ’فائیو جی‘ کو متعارف ہونے میں کئی مہینے نہیں بلکہ سال لگ سکتے ہیں۔ پاکستان کی ’آئی ٹی انڈسٹری‘ اِس وقت ملک کی نازک معاشی صورتحال کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اِس معاشی
بحران اور فائیو جی کے بار بار ملتوی ہونے کو ”سیاسی پوائنٹ سکورنگ“ کے لئے استعمال کیا جائے۔ سیاسی و معاشی استحکام لانا کسی ایک سیاسی جماعت کی ذمہ داری نہیں لیکن اِس ذمہ داری (فرض) میں دیگر سبھی جماعتیں بھی شریک ہیں جنہیں اپنے طرزعمل پر غور کرنا چاہئے کہ کس طرح اِن کے آپسی اصولی و نظریاتی اختلافات کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں ابھی ’فور جی‘ ٹیکنالوجی سے نہ تو موبائل صارفین کی سوفیصدی تعداد متعارف ہوئی ہے اور نہ ہی فور جی ٹیکنالوجی سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جا سکا ہے وہاں ’فائیو جی ٹیکنالوجی‘ کا متعارف ہونا زیادہ بڑا (انقلابی) اقدام نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ موجود ٹیکنالوجی اور موجود وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ٹیکنالوجی سے اپنائیت پیدا کی جائے‘ اِسے بہتر سے بہتر بنانا دوسرے مرحلے کا کام کسی دوسرے مناسب وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہوئے حکومتی و نجی اداروں کو ’فور جی ٹیکنالوجی‘ کے زیادہ سے زیادہ استعمال‘ ’اِی گورننس‘ اور ’اِی کامرس‘ کی جانب راغب کرنے کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہیئں۔