ایک وقت تھا کہ جب چینی کا نام سنتے ہی منہ میں مٹھاس گھل جایا کرتی تھی لیکن آئے روز چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے یہ مٹھاس کرواہٹ میں تبدیل ہو گئی ہے! روزمرہ استعمال کی اِس جنس (جسے ڈاکٹر سفید زہر بھی کہتے ہیں) کی قیمتوں کو قرار نہ ہونے کی وجہ حکومت کے نکتہئ نظر سے شوگر ملیں ہیں جبکہ شوگر ملز کا مؤقف ہے کہ گنے کی زیادہ امدادی قیمت مقرر کرنے اور برآمدات کی اجازت نہ ملنے جیسے 2 بنیادی محرکات سے اِس کی پیداوار اور رسد میں فرق پیدا ہو رہا ہے جس کی وجہ سے شوگر ملوں کو نقصان ہوگا۔ جواز (وجہ) جو بھی ہو لیکن حکومت اور شوگر ملز کے درمیان جاری تنازعے کی وجہ سے گنے کے کاشتکار اور عوام گھبرائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف شوگر ملز انڈسٹری نے حکومت سے گنے کی کرشنگ سیزن کے آغاز پر اضافی چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی جانب سے کم از کم گنے کی قیمت ِخرید کے تعین میں تاخیر کے بعد کرشنگ سیزن نومبر کے آخری ہفتے میں شروع ہو چکا ہے۔ اِس سال کے لئے پنجاب حکومت نے کم از کم قیمت خرید تین سو روپے فی من (چالیس کلوگرام) مقرر کی ہے جو گزشتہ سال 225روپے فی من تھی۔ سندھ حکومت نے اِس سال گنے کی امدادی قیمت خرید گزشتہ سال 250 روپے فی من سے بڑھا کر 302 روپے فی من مقرر کی ہے ظاہر ہے کہ جب شوگر ملیں گنے کی خریداری زیادہ قیمت کے عوض کریں گی تو وہ گنے سے حاصل ہونے والی بنیادی جنس یعنی چینی بھی زیادہ نرخوں پر فروخت کریں گی۔ گنے کی امدادی قیمت کے تعین میں مبینہ تاخیر نے شوگر ملوں نے پہلے ہی 2 ہفتے بعد کرشنگ شروع کی ہے‘ جو عموماً نومبر کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں شروع ہو جایا کرتی تھی۔ شوگر ملیں رواں سال گنے کی غیرمعمولی طور پر زیادہ (بمپر) فصل ہونے کی اُمید پر حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں انہیں اضافی چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ قومی ضرورت سے زیادہ چینی موجود ہے۔ شوگر ملز کا مؤقف ہے کہ رواں سال بھی 2017-18ء کی طرح زیادہ مقدار میں چینی تیار کی ہوگی کیونکہ گنے کی اچھی فصل حاصل ہوئی ہے لیکن زیادہ چینی کی پیداوار سے شوگرملوں کے پیداواری اخراجات بھی بڑھتے ہیں جو مالی مسائل کا باعث ہوتے ہیں اور جن کا آسان حل اضافی چینی برآمد کرنا ہے تاکہ شوگر ملز انڈسٹری مالی بحران کا شکار نہ ہو لیکن یہاں صورتحال کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ شوگر ملیں ملک میں چینی کی دستیابی سے متعلق جو اعدادوشمار فراہم کر رہی ہیں وہ پرانے ہیں یعنی درست نہیں اور اگلے کرشنگ سیزن سے پہلے ہی چینی ختم ہو جائے گی۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ طلب و ذخیرہ اندوزی زیادہ ہونے کی وجہ سے چینی کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور دوسرا چینی درآمد کر کے یہ کمی پوری کرنے کے لئے ملک کو قرض لینا پڑتا ہے۔ شوگر ملیں کسی بھی معمولی مالی بحران کا سارا بوجھ بلکہ بحران سے زیادہ بوجھ گنے کے کاشتکاروں پر ڈال دیتی ہیں۔ ماضی میں شوگر ملوں نے جب گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیاں روکیں تو اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اِس معاملے کا از خود نوٹس لیا اور ملوں کو حکم دیا تھا کہ وہ گنے کے کاشتکاروں کو فوری ادائیگی کریں۔ ایسے کئی مواقع دیکھنے میں آئے ہیں جب شوگر ملرز کو منافع کما کر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہو اور شوگرملوں کو ’فریٹ سبسڈی‘ بھی دی گئی ہو۔لیکن ماضی کے واقعات اور تجربات کسی کے پیش نظر نہیں جو ایک بات یقینی دکھائی دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ شوگر ملز مالکان نے چینی برآمدات کی اجازت حاصل کرنے کے لئے بھرپور ’لابنگ‘ کی اور وہ حکومت سے اپنی بات منوانے میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔پاکستان میں گنے کی فصل سے متعلق شوگر ملز کے دعوے غلط ہیں۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے بالخصوص سندھ میں گنے کی فصل کو نقصان پہنچا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیلاب سے قبل حکومت کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی تخمینوں کے مقابلے گنے کی کم پیداوار حاصل ہو گی جبکہ سیلاب سے قبل اِن حکومتی اعدادوشمار کا سہارا لے کر شوگرملز مالکان چینی کی برآمد کی اجازت چاہتے ہیں۔ پنجاب حکومت کے مطابق گنے کا زیر کاشت رقبہ گزشتہ سال 2 کروڑ 14 لاکھ 800 ایکڑ تھا جس میں 7.9 فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم پنجاب کے محکمہئ زراعت کا کہنا ہے کہ رواں سال موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب کی وجہ سے گنے کی فی ایکڑ پیداوار میں 0.3 فیصد کمی متوقع ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں ماہ (نومبر دوہزاربائیس) کے آخری ہفتے کے دوران پاکستان میں چینی کا ذخیرہ 9 لاکھ 37 ہزار میٹرک تھا۔ اس میں پانچ لاکھ ساٹھ ہزار ٹن سے زیادہ پنجاب‘ 3 لاکھ اکسٹھ ہزار ٹن سے زیادہ سندھ اور چھیالیس ہزار ٹن چینی خیبر پختونخوا میں ذخیرہ ہے۔ حکومت قریب دس لاکھ میٹرک ٹن چینی الگ سے ذخیرہ کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ کسی بھی وقت چینی کا بحران پیدا نہ ہو۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے درمیان ہوئے حالیہ اجلاس اِس بات پر اصولی اتفاق رائے پایا گیا کہ چینی کی دستیابی کے باعث رواں سال اِس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹینز ڈویلپمنٹ اور پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے مطابق سال دوہزاربائیس میں پاکستان میں سیلاب آئے جس سے سندھ میں فصلوں کے نقصانات ہوئے اور وسیع علاقہ آج بھی زیرآب ہے جس سے قریب 2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اِس نقصان میں کھجور‘ کیلا و دیگر ایسی زرعی اجناس شامل ہیں جو موسم کی وجہ سے خراب ہوئی ہیں۔ گنا زیادہ تر پاکستان کے شمال مشرقی اضلاع میں کاشت کیا جاتا ہے جہاں سیلاب کی تباہ کاریاں نسبتاً کم ہوئی ہیں تاہم پھر بھی سیلاب سے گنے کی فصل کو ہوئے نقصان کا تخمینہ ساڑھے دس ملین ٹن لگایا گیا ہے اور ملک میں گنے کی متوقع پیداوار کا 61فیصد سیلاب یا موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ہوئے نقصان کی وجہ سے متاثر ہیں۔ چینی کے صارفین کو آنے والے دنوں میں ’چینی کی قیمتوں میں اضافے کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے کیونکہ چینی برآمد کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حسب سابق و حسب معمول یہ ہوگا کہ پاکستان میں چینی کی قلت رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہو جائے گی اور 2 ماہ سے بھی کم عرصے بعد شروع ہونے والے ما ہ مضان المبارک سے قبل چینی کی قیمتوں میں اضافہ یقینی دکھائی دے رہا ہے۔