ویسے تو اب گیس ساراسال ہی نایاب رہنے لگی ہے تاہم جونہی سردیوں میں شدت آتی ہے تو پھر صوبائی دارلحکومت کے شہری گیس کو چراغ لے کرڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں مگر قدرتی گیس پھر ان کے ہا تھ نہیں آتی یہ آنکھ مچولی کاکھیل پھر سارا موسم سرما جاری رہتاہے اورپشاور کے باسی اکیسویں صدی میں بھی رہتے ہوئے اٹھارہویں صدی کی بودوباش اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں دیہی علاقوں میں تو لوگ آج بھی لکڑیاں اور اپلے جلاکر گذربسر کرلیتے ہیں مگرشہری علاقوں کے لوگوں کے لیے لکڑیاں جلانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا جہاں تک گیس سلنڈر وں کاتعلق ہے تو بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے وہ بھی اب دسترس سے نکلتے جارہے ہیں کسی زمانے میں جب بجلی سستی اوروافر ہوا کرتی تھی تولوگ بجلی کے ہیٹروں سے یاپھر بہت سے لوگ مٹی کے تیل کے چولہوں سے بھی کام چلالیا کرتے تھے مگر جب سے باورچی خانوں میں گیس کے پائپوں کے ذریعہ قدرتی گیس کے استعمال کاسلسلہ شروع ہواہے تو تب سے شہری علاقوں کے لوگ اب مکمل طورپر اسی پرانحصار کرنے لگے ہیں تو اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جب گیس غائب ہوجاتی ہے تو لوگوں خاص طورپر خواتین کو شدید مشکلات بلکہ ذہنی کوفت کاسامناکرناپڑتاہے اگرہم بات کریں تو اس وقت پشاور کے بہت سے گنجان آباد علاقوں میں گیس یا تو اکثر و پیشتر غائب رہتی یا پھر کم پریشر کی وجہ سے پھر کمپریسر کااستعمال کرناپڑتاہے اورسوئی گیس حکام پریشر کامسئلہ حل کرنے کے بجائے کمپریسر وں کے خلاف آپریشن کرکے نئی تجارت میں مشغول ہوجاتے ہیں راقم خوداس صورت حال سے متاثر چلا آرہاہے ہمارے علاقے غیاث آبادبھانہ ماڑ ی میں گیس کامسئلہ حل کرنے کے لیے چند گز پائپ بچھانے کی ضرورت ہے مگر کسی نے بھی اس جانب توجہ مبذول کرنا مناسب نہیں سمجھا چنانچہ حالات کے جبر کے سامنے ہمیں بھی ہتھیارڈالنے پڑے ان حالات میں نو تعینات شدہ گورنر نے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی عدم فراہمی اور کم پریشر کا نوٹس لے کر بہتری کے امکانات روشن کردیئے روزنامہ آج میں شائع شدہ خبر کے بعد گورنر حاجی غلام علی نے پیر کو محکمہ سوئی گیس کے حکام کااجلاس طلب کیا حالانکہ یہ کام بہت پہلے ہمارے حکمرانوں کو کرناچاہئے تھا مگر بدقسمتی سے اس شہر کو اپنا شہرسمجھنے والے بہت کم حاکمان گذرے ہیں اس شہر نے جس کے ساتھ وفا کی اس نے بھی اکثر اسی شہر کو نظر انداز کیا ان حالات میں پشاور سے تعلق رکھنے والے دیرینہ سیاسی کارکن اور شہری مسائل سے باخبر گورنر نے جب گیس حکام کااجلاس طلب کیا تو امید ہوچلی کہ اب کچھ نہ کچھ نتیجہ نکل آئے گا چنانچہ پیر کوہونے والے اجلاس میں سوئی گیس حکام کی جانب سے گورنرخیبرپختونخوا کوگیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر سے متعلق تفصیلی بریفنگ اور وجوہات سے متعلق آگاہ کیاگیا۔بریفنگ کے دوران ہی گورنر خیبر پختونخوا نے منیجنگ ڈائریکٹر سوئی گیس علی جاوید ہمدانی سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کیا اور انہیں پشاور شہر اور مضافات کے عوام کو گیس کی عدم دستیابی اور کم پریشر جیسی مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کسی صورت بھی گیس کی عدم دستیابی اور اس حوالے سے عوام کی پریشانی برداشت نہیں کی جائے گی، گورنر نے یہ بھی واضح کیاکہ گیس کی بوسیدہ پائپ لائنوں کی بدولت لیکج کے باعث گیس ضائع ہو رہی ہے، پشاور کے اکثر علاقوں میں گیس لیکج کی شکایات موصول ہو رہی ہیں، گیس ایک قومی دولت ہے جس کو بچانے کیلئے بوسیدہ پائپ لائنوں کی تبدیلی کا کام فوری مکمل ہونا چاہئے، جس پر منیجنگ ڈائریکٹر سوئی گیس کا کہنا تھا کہ پشاورومضافات میں بوسیدہ پائپ لائنوں کی تبدیلی اور نئی گیس پائیپ لائینوں کی تنصیب کاکام نہ صرف فوری شروع کردیاجائیگابلکہ تین ماہ میں مکمل بھی ہو جائیگا، دریں اثناء گورنر خیبر پختونخوا کو بتایاگیا کہ پشاوشہر اور مضافات، بالخصوص ورسک روڈ، چارسدہ روڈ اندرون شہرکے تمام علاقوں میں گیس کے کم پریشر اور گیس کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کیلئے تین ارب روپے کی لاگت سے پائپ لائن منصوبہ زیرغورہے اور یہ منصوبہ نہ صرف تیزی کے ساتھ شروع ہوجائیگا بلکہ فروری تک مکمل بھی ہو جائیگا۔اس منصوبے کے تحت بوسیدہ گیس پائپ لائن نیٹ ورک کی تبدیلی سے پشاور شہرو مضافات بالخصوص تہکال پایان، تہکال بالا،، گلبرگ، نوتھیہ، ورسک روڈ، پجگی روڈ، لنڈی ارباب، غریب آباد، شامی روڈ، گلبہار،ریگی اور دیگرملحقہ علاقوں میں گیس کے کم پریشر اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا سوئی گیس حکام یہ دعوے پہلے بھی کرتے رہے ہیں لیکن اس باران کاواسطہ ایک متحرک گورنر سے پڑاہے جس کے شب وروز اسی شہر کی گلی کوچوں میں بسر ہوئے ہیں اور جو ضلعی ناظم کے طورپر شہر کے چپے چپے سے واقف بھی رہاہے پہلی بار پشاور سے تعلق رکھنے والے کسی گورنر نے کسی عوامی مسئلہ پر نہ صرف فوری ایکشن لیاہے بلکہ اب اس کے حل کیلئے ایک طرح سے ڈیڈ لائن بھی متعلقہ حکام سے لے لی ہے حاجی غلام علی نے کونسلر سے گورنر تک کا سفر کم وبیش چارعشرے میں مکمل کیا ہے وہ حقیقی معنوں میں اس شہر کے باشندے ہیں اس لیے اب امید ہوچلی ہے کہ شہر کے بعض مسائل جن کاتعلق اس وقت وفاق سے ہے ان کی ذاتی دلچسپی کی بدولت حل ہوہی جائیں گے لگتاہے کہ حاجی غلام علی نے اپنا انتخاب درست ثابت کرنے اور ناقدین کے منہ بند کرنے کیلئے میدان عمل میں اترکر عملی اقدامات کے ذریعہ جواب دینے کی حکمت عملی اختیار کرلی ہے اور کم از کم عوامی مسائل کے حل کے حوالہ سے ان کی کوششوں کو نہ صرف ہماری بلکہ پورے شہر کی پرجوش حمایت حاصل ہوگی۔