وزیر مملکت برائے خارجہ امور محترمہ حنا ربانی کھر نے افغانستان کے ایک روزہ دورے (29نومبر) کے دوران دارالحکومت کابل میں قائم مقام وزیر خارجہ ’امیر خان متقی‘ سے ملاقات کی تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ محترمہ حنا ربانی کھر اور امیر متقی کے درمیان ملاقات میں سیکورٹی امور پر تبادلہئ خیال ہوا ہے یا نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے عہدہ سنبھالنے کے بعد (اپریل دوہزاربائیس کے بعد) کابل کا دورہ کرنے والا یہ پاکستان کا پہلا اعلیٰ سطحی وفد تھا جبکہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اکتوبر (دوہزاراکیس) میں کابل کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ”محترمہ حنا ربانی کھر نے تعلیم‘ صحت‘ تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون‘ علاقائی روابط‘ عوام سے عوام کے رابطوں‘ سماجی اقتصادی منصوبوں سمیت مشترکہ دلچسپی کے دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔“ افغانستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”امیر متقی نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور راہداری میں تیزی لانے اور بالخصوص پاکستان کا سفر کرنے والے افغانوں کے لئے سہولیات کے ساتھ پاکستان میں اَفغان قیدیوں کی رہائی سے متعلق بات چیت کی۔“ اگر دونوں وزرائے خارجہ کے بیانات کا موازنہ کیا جائے تو اِن میں ’سرحدی امور یا سیکورٹی‘ کے حوالے سے بات چیت کا ذکر نہیں اور جب تک پاکستان اور اَفغانستان کے درمیان ’سیکورٹی اَمور‘ طے نہیں ہو جاتے اُس وقت تک دیگر سبھی امور پر بات چیت کچھ خاص معنی نہیں رکھتی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان نے اب تک افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا‘ جنہیں موجودہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور وہ سفارتی تنہائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کو پاکستان سے تجارتی سبقت‘ اِمداد اور راہداری کی سہولیات کے علاوہ سفارتی اثرورسوخ کی بھی ضرورت ہے لیکن جواباً وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین اور وسائل کا استعمال روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ بین الاقوامی برادری نے افغان طالبان حکومت پر دباؤ ڈالے ہوئے ہے کہ اگر وہ اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت یا دہشت گردی کے لئے استعمال کی اجازت نہ دے تو اِس پر عائد عالمی پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر‘ وزارت خارجہ اور دیگر حکام کا ایک وفد اِس ایجنڈے کے ساتھ کابل پہنچا کہ تعلیم و صحت‘ علاقائی روابط‘ عوام سے عوام کا رابطہ‘ اور سماجی و اقتصادی تعاون نیز سرحد پار تجارت جیسے امور پر توجہ دی جائے گی۔ اِن سبھی امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان کی وزیر مملکت خاتون جو اپنی خوش لباسی کے لئے مشہور ہیں‘ سرکاری لباس (شلوار قیمض) پہن کر کابل پہنچیں اور طالبانحکام سے خواتین کی تعلیم پر بات کی۔ اِس حوالے سے افغان نائب خارجہ امور کے ترجمان حافظ ضیا تکل نے اپنے ٹویٹ (پیغام) میں کہا کہ دونوں ممالک نے ”مسائل کے حل کے لئے مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات پر اتفاق کیا‘ دوطرفہ تعلقات کے لئے نئے میکانزم متعارف کرانے پر بھی مختصر بات چیت ہوئی۔“ اِس غیرمعمولی دورے سے قبل اُمید تھی کہ اگرچہ افغانستان سے سرحد پار دہشت گردی اور سرحدی سلامتی ایجنڈے کا حصہ نہیں لیکن اِس حوالے سے بات چیت ضرور ہوگی۔ توقع یہ بھی تھی کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت کے حقوق کے حوالے سے بھی بات کی جائے گی لیکن سرکاری سطح ہوئی ملاقاتوں میں ایسی کوئی بھی یقین دہانی سامنے نہیں آئی جو افغان خواتین کے لئے ’خوشخبری‘ قرار دی جا سکے۔ وزیر مملکت نے افغان ویمنز چیمبر آف کامرس کی اراکین سے بھی ملاقات کی۔ حوصلہ افزا طور پر‘ پاکستان نے دونوں ممالک کی خواتین کاروباریوں کے درمیان روابط مضبوط بنانے اور افغانستان میں خواتین کے زیر انتظام کاروبار کو برآمدی شراکت داروں کے طور پر ترجیح دینے سے متعلق تجاویز کا خیرمقدم کیا اور اِس سلسلے میں ہرممکن سہولت کاری کا وعدہ کیا ہے۔ افغان حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک ’عالمی خدشات‘ موجود ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اُس وقت تک اُنہیں عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ حنا ربانی کھر کا دورہئ افغانستان ایک ایسے خاص وقت میں ہوا ہے جب تحریک طالبان پاکستان نے اپنی اعلان کردہ جنگ بندی ختم کر دی ہے اور ملک کے کئی حصوں میں دہشت گرد حملوں کا سلسلہ ایک ماہ وقفے کے بعد پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ بیس برس میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مختلف مواقعوں پر جنگ بندیاں ہوئیں لیکن اِس مسئلے کو جڑ سے اُس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکے گا جب تک افغانستان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کے وعدے پر قائم نہ رہے۔۔ پاک افغان سرحد 2 ہزار 670 کلومیٹر (1660میل) ہے اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان افغانستان اچھے ’ورکنگ ریلیشن شپ‘ کے تحت ایک دوسرے کے لئے خطرہ بننے کی بجائے ایک دوسرے کے محافظ و مددگار بنیں تاکہ خواتین و اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی خوش اسلوبی سے کرنے کے قابل ہوں۔ وزیرمملکت کا دورہئ کابل اور اِس طرح کے مذاکرات انتہائی اہم ہیں اور پاکستان کو اپنی سلامتی کے ساتھ تجارت اور سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی حفاظت کے لئے اپنے مغربی پڑوسی ملک کے ساتھ علاقائی مفاہمت کو فروغ دینا چاہئے۔ زیادہ تر ذمہ داری افغان طالبان حکومت پر عائد ہے کہ جنہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے الگ تھلگ (سفارتی تنہائی) نہیں رہ سکتے۔ اِنہیں نہ صرف اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے بلکہ افغان عوام کو بھی ملک کے زیادہ روشن (بہتر) مستقبل کے لئے برابری کی بنیاد پر شریک سفر کرنا چاہئے۔ افغانستان کے لئے پاکستان ’لائف لائن‘ ہے۔ پاکستان 1979ء سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ (قانونی یعنی دستاویزی اور غیرقانونی یعنی غیردستاویزی) افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں اور اپنی اِس غیرمشروط میزبانی و قربانی اور ایثار کے لئے فطری طور جواباً چاہتا ہے کہ اِس کے مفادات کا تحفظ ہو۔