پاکستان میں زرعی معیشت و معاشرت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع دینے سے صرف زراعت تن تنہا ہی ترقی نہیں کرے گی بلکہ دیگر زرعی وابستہ و غیر وابستہ شعبوں میں بھی روزگار بڑھے گا تاہم اِس سلسلے میں اُن ممالک کی مثالوں کو مدنظر نہیں رکھنا چاہئے جنہوں نے زرعی شعبے میں زیادہ پیداوار کے لئے قدرت کے بنائے ہوئے توازن (تنوع) میں بگاڑ پیدا کیا۔ اِس سلسلے میں ’نیوزی لینڈ‘ کی ایک مثال موجود ہے۔ نیوزی لینڈ دنیا کا قدیم ترین نہیں بلکہ جدید ترین آباد ہونے والا ملک ہے جو کئی جزیروں کا مجموعہ ہے یہ جنوب مغربی بحرالکاہل کی خود مختار ریاست اور جغرافیائی حساب سے دو بڑے زمینی ٹکڑوں شمالی جزیرہ و جنوبی جزیرہ پر مشتمل ہے۔ اِن دو مرکزی جزیروں کے علاوہ چھ سو دیگر چھوٹے جزائر نیوزی لینڈ کا حصہ ہیں۔ نیوزی لینڈ بحیرہ تسمان میں آسٹریلیا سے دوہزار کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ نیوزی لینڈ کوئی ایسا ملک نہیں تھا جس کے پاس بہت سارے وسائل ہوتے۔ بس میلوں پر پھیلے کھیت اُور جنگلات تھے۔ ملک کے فیصلہ سازوں نے زراعت کو بطور صنعت ترقی دینے کا فیصلہ کیا اُور نیوزی لینڈ کے کاشتکاروں کو مال مویشی پالنے کی طرف راغب کرنے کے لئے ایسی بے مثال مراعات کا اعلان کیا کہ ایک موقع پر کاشتکار اور مویشی پال کسانوں کی آمدنی ملک کے ڈاکٹروں انجنیئروں اُور دیگر شعبوں سے زیادہ ہو گئی۔ حکومتی رعایت کا یہ سلسلہ چند دہائیوں تک چلا جس کی وجہ سے پسماندہ ترین علاقوں کی زمینیں آباد ہوئیں اور وہاں کھیت یا چراہگاہیں بن گئیں البتہ زراعت کو جلدازجلد ترقی دینے کے لئے مصنوعی کھادوں کا بیدریغ استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوئی اور ماحول کو بھی نقصان پہنچا۔ بھیڑوں کی افزائش اِس قدر زیادہ ہونے لگی کہ اُن کا گوشت مقامی طلب اُور برآمد کرنے کے بعد تلف کرنا پڑتا تھا۔ ابتدا میں تو کسی ملک نے نوٹس نہ لیا لیکن 1984ء میں اقوام متحدہ (یو این) کنونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی نے نیوزی لینڈ کی زرعی اصلاحات اور اُن کے نتائج کا مطالعہ کیا جس کے مطابق نیوزی لینڈ بھر میں سبسڈی پروگراموں نے قدرت کے بنائے ہوئے نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔ ندی نالے (پانی کے ذخیرے) آلودہ ہو چکے ہیں اُور مصنوعی کھاد کے استعمال سے زرخیز مٹی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ عالمی دباؤ بڑھا اور نیوزی لینڈ نے زراعت کو دی جانے والی سبسڈیز مرحلہ وار کم کی گئی اور اِسے بالکل ختم کر دیا گیا اور اُس کے بعد وہاں کھیتی باڑی (کاشتکاری) معمول پر آ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ زراعت سمیت دیگر شعبوں میں ہر سال کم از کم پانچ سو ارب ڈالر کی سبسڈیز دی جا رہی ہیں اور اِن حکومتی سبسڈیز سے فطرت کے بنائے ہوئے ماحولیاتی تنوع کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بزنس فار نیچر ایڈوکیسی گروپ نے چند ماہ قبل (فروری دوہزاربائیس) میں ایک مطالعہ شائع کیا تھا جس کے مطابق حکومتی سبسڈیز کی وجہ سے ماحولیات کو پہنچنے والا سالانہ نقصان 1.8 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ’ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران قدرت کے بنائے ہوئے نظام نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے 54فیصد اخراج کو جذب کیا لیکن دانشمندی اِسی میں ہے کہ کاربن کے اخراج کو کم کیا جائے اور ایسی زرعی پیداواری طریقوں سے اجتناب برتا جائے جس کی وجہ سے وقتی طور پر تو زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے لیکن غذائی تحفظ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جب ہم مصنوعی کھادوں کے استعمال کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زرخیز مٹی میں کمی آ رہی ہے کہ سال 2050ء تک دنیا بھر میں پچانوے زمین کی زرخیزی انحطاط کا شکار ہوئی۔ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ جو کہ ’تھنک ٹینک‘ ادارہ ہے کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ”حکومتوں کی جانب سے زرعی سبسڈی سے چھوٹے کسانوں کی بجائے بڑے کسان فائدہ اُٹھاتے ہیں اور وہ چھوٹے کاشتکاروں کا بھی استحصال کرتے ہیں۔ اگر زراعت پر سبسڈی کے ذریعے دباؤ ڈالاجائے کہ وہ کم رقبے سے زیادہ پیداوار دے تو اِس سے مٹی کی صلاحیت متاثر ہوگی جبکہ بہتر طرزعمل یہ ہے کہ قدرتی کھادوں اُور قدرتی طریقوں سے کاشتکاری کی جائے اور زیادہ پیداوار کے لئے زیادہ رقبہ اور موسمیاتی اثرات کا مقابلہ کرنے والا بیج تیار کیا جائے لیکن فطرت کے تحفظ کے لئے جو بھی زرعی اصلاحات تجویز یا لاگو کی جاتی ہیں اُن سے راتوں رات اور اُس وقت تک تبدیلی نہیں آتی جب تک زراعت سے وابستہ شعبے کے تمام افراد اِس سلسلے میں یک سو (اصلاحات سے متفق) نہ ہوں۔ اگر پاکستان کے فیصلہ ساز اور زرعی تعلیم و تربیت کے ادارے ’نامیاتی کاشتکاری‘ پر توجہ تو صرف چاول ہی نہیں بلکہ فصلوں کی فروخت میں بھی دنیا پر حکمرانی کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے کے لئے زراعت کے بین الاقوامی ماڈلز (زرعی طریقوں) سے آشنا ہونا پڑے گا۔ ”نامیاتی کاشتکاری“ کوئی جدید تصور نہیں۔ لفظ ”نامیاتی“ زیادہ تر مصنوعی کیمیائی مادوں کے استعمال کے بغیر اجناس کے لئے کیا جاتا ہے عموماً ’نامیاتی کاشتکاری‘ کی کوئی تسلیم شدہ (عالمی مسلمہ) تعریف نہیں لیکن زیادہ تر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کسی سبزی یا پھل کے ساتھ ’آرگینک‘ لکھا ہوا ہے تو یہ ایک بالکل مختلف طریقے کے زرعی نظام کی پیداوار ہے جسے حاصل کرنے کے لئے انسانوں کے بنائے ہوئے کیمیائی مادوں‘ گروتھ ریگولیٹرز‘ مویشیوں کے کھانے میں اضافے اور خطرناک کیڑے مار ادویات کا استعمال نہیں کیا گیا۔ امریکہ کا قومی زرعی ادارہ (یو ایس ڈی اے) کے مطابق ”وہ کسان جو کاشتکاری کے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی کیمیائی مادوں سے بچنے اور ماحول کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ انہیں نامیاتی کسان کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسے نامیاتی کاشتکاری کے تصور سے اتفاق کرنے والے فارغ التحصیل طلبہ (گریجوئیٹس) اور کاشتکاروں کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔بنیادی سوال اکثر یہ کیا جاتا ہے کہ نامیاتی کاشتکاری کیوں کی جائے؟ اِس کی وجوہات بہت سی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ زمین کی زرخیزی کا متاثر نہ ہونا ہے جو کیمیائی کھادوں اور کیمیائی مادوں سے بنی زہریلی ادویات کے چھڑکاؤ کی وجہ سے اپنی پیداواری صلاحیت کم کر دیتی ہے۔ دوسری اہم بات وہ غلط تصور ہے کہ نامیاتی طریقوں سے کاشتکاری منافع بخش نہیں ہوتی کیونکہ اِس میں زیادہ رقبے سے کم پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں ’نامیاتی ماڈل کاشتکاری مہم‘ کا آغاز کرتے ہوئے اگر زرعی گریجوئٹس کو غیرآباد زمینیں اور کاشتکاری کے وسائل دیئے جائیں تو اِس سے نہ صرف گندم میں خودکفالت حاصل ہوگی بلکہ نامیاتی کاشتکاری کا لازمی جز مال مویشیوں کی افزائش سے بھی آمدنی ممکن ہے۔