ملک میں اگلے عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی طرف سے تیاریاں جاری ہیں اور نئی حلقہ بندیاں بھی ہوچکی ہیں‘انہی کی بنیاد پر تو الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ کو بتایاتھاکہ ابھی الیکشن کیلئے تیاریاں مکمل نہیں ہیں اور حلقہ بندیوں کاعمل جاری ہے وگرنہ مبصرین کے مطابق جب عمران خان کی طرف سے قومی اسمبلی توڑی گئی اور معاملہ عدالت میں چلا گیا تو اس بات کے امکانات تھے کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے جلدسے جلد الیکشن کی تاریخ دے دی جاتی تاہم جب الیکشن کمیشن نے ہاتھ کھڑ ے کردیئے تو پھر عدالت کو بھی موجود امکانات کے تناظر میں ہی فیصلہ کرنا پڑا اب یہ مرحلہ بھی مکمل ہوچکاہے اور اگر فوری الیکشن کی نوبت آتی ہے تو اس راہ میں کوئی آئینی رکاوٹ حائل نہیں رہی تاہم ا س وقت اصل مسئلہ ملک کی سب سے بڑ ی جماعت اور الیکشن کمیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کاہے ویسے تو دونوں کے درمیان گذشتہ کچھ عرصہ سے اختلافات چلے آرہے ہیں تاہم ان میں شدت تحریک عدم اعتماد،پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اور پھر فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد آئی ہے پاکستان تحریک انصاف اس تمام عرصہ میں الیکشن کمیشن پر جانبداری کاالزام عائد کرتے ہوئے اسکے فیصلوں کو متنازعہ قراردیتی رہی ہے اس دوران کسی بھی فریق کی طر ف سے باہمی بداعتماد ی کم کرنے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی جاسکی بلکہ بداعتمادی میں مزید شدت آتی جارہی ہے گذشتہ دنوں ایک ہی روز الیکشن کمیشن کی طرف سے دومختلف فیصلے سامنے آئے پہلے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے جرمانہ عائد کئے جانے کے فیصلے کیخلاف انکی اپیل مسترد کردی گئی جبکہ اسی روزوفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی اسی قسم کی اپیل منظور کرلی گئی جس پر پی ٹی آئی کے حلقوں نے ایک بارپھر شور مچایا اسی طرح جب عمران خان نے تمام اسمبلیوں سے استعفوں کااعلان کردیا تو الیکشن کمیشن کے ترجمان نے فوری طورپر واضح کردیاکہ جو اراکین استعفے دینگے انکی خالی ہونیوالی نشستوں پر فوری ضمنی الیکشن کروادیئے جائینگے انکایہ بھی کہناتھاکہ ایک ہی سال میں ضمنی اور عام انتخابات کرانا اگرچہ مشکل ہے مگر ہم اس ے لئے تیار ہیں اس بیان کے بعد ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے مجاہدین کی توپوں کارخ ایک بارپھر الیکشن کمیشن کی طرف ہوگیااور عدم اعتماد کی خلیج مزید گہری ہوگئی اسوقت الیکشن کمیشن جو کہ ایک آئینی ادارہ ہے اور اسکی ذمہ دار ی بنتی ہے کہ وہ ایسی فضاء پیدا کرے اور پھر اس کو قائم بھی رکھے کہ تمام سیاسی قوتوں کا اعتماد اسے حاصل ہو اور اسکے اقدامات پر کسی کو بھی انگلیاں اٹھانے کاموقع نہ مل سکے‘ نوے کی دہائی میں الیکشن کمیشن ہمیشہ حکومتوں کے زیر اثر ادارہ رہا اسلئے کہ اسکے اقدامات کو کبھی بھر پورعوامی وسیاسی پذیرائی اورحمایت نہیں ملاکرتی تھی جنرل پرویز مشرف کے دو ر میں جب افتخار چوہدری چیف جسٹس بنے اور جوڈیشل ایکٹواز م کادورشروع ہوا تو الیکشن کمیشن بھی ایک طاقتو ر ادارہ بن کر سامنے آنے لگا اور پھر اٹھارہویں ترمیم کے بعدتو اسکی حیثیت اور بھی مضبوط ہوگئی چنانچہ اسکے بعد بھی اگرچہ الیکشن کمیشن پر تنقید ہوتی رہی مگر الیکشن کمیشن نے خود کو فریق ہونے سے ہمیشہ بچائے رکھا اوریہی وجہ رہی کہ کسی فریق کی طرف سے الیکشن کمیشن کی مخالفت پھر زیادہ شدت اختیار نہ کرسکتی مگر اب تو بدقسمتی سے آئینی ادارہ فریق بن کرسامنے آنے لگاہے ان حالات میں کہ جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت باربار الیکشن کمیشن کے کردار پر انگلیاں اٹھارہی ہے تو مستقبل قریب میں ہونیوالے انتخابات کو آخر کیونکر سب کیلئے قابل قبول بنایاجاسکے گا یہ بجاہے کہ پی ٹی آئی کوبھی لچک کا مظاہرہ کرناچاہئے تاہم یہ کہاجاسکتاہے کہ وہ تو ایک سیاسی جماعت ہے الیکشن کمیشن تو ایک ادارہ ہے اور ادارہ و پارٹی کے طرز عمل میں فرق صاف دکھائی دیاجاناچاہئے اس وقت دونوں کے درمیان جو عدم اعتماد کی خلیج حائل ہے اس کو پاٹنے کی ذمہ داری اگرچہ دونوں کی ہے مگر اس میں زیادہ کردار الیکشن کمیشن کواداکرناہوگا پی ٹی آئی کے الزامات کے جواب میں الیکشن کمیشن کو کسی سیاسی مخالف کی زبان میں جواب دینے کے بجائے اپنے اقدامات سے ثابت کرنا چاہیئے کہ پی ٹی آئی بے بنیادالزا م تراشیوں میں مصروف ہے اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنے کی تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہی عائد ہوتی ہے اگر پی ٹی آئی الیکشن کمیشن پر بے جاتنقید کرتی ہے تو اس کاسیاسی جواب حکومت اور حکومتی جماعتوں کی طرف سے سامنے آناچاہئے نہ کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ملک تیز ی سے انتخابات کی طرف بڑھ رہاہے اگر قبل ازوقت الیکشن نہ ہوئے تو بھی اب محض آٹھ ماہ بعد حکومتوں کی چھٹی ہونیوالی ہے جسکے بعدانتخابات کاڈول ڈالا جائیگا ان حالات میں الیکشن کمیشن کو اپنی تمام ترتوجہ الیکشن کی تیاریوں اور اعتمادکی فضاء کی بحالی پر مرکوز کرنی چاہئے جب تک تمام بڑی جماعتوں کا الیکشن کمیشن پر اعتماد کھل کرواضح نہیں ہوتا اور کوئی ایک بھی بڑی جماعت اس ادارے کو متنازعہ سمجھتی رہی تو ان حالات میں ہونیوالے انتخابات کی شفافیت کو آخر کیسے یقینی بنایاجاسکے گا موجود ہ حالات میں قوم نئے انتخابات کے بعد مزید کسی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہوسکتی اسلئے ضروری ہے کہ نئے انتخابات چاہے قبل ازوقت ہوں یا پھر مقرر ہ وقت پر،کو متنازعہ ہونے سے بچانے کیلئے الیکشن کمیشن اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے اسے پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرناچاہئے پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بھی الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے پر محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے تنقید سے گریز کرناہوگا بصورت دیگر اگلے انتخابات کے بعدبھی سیاسی استحکام کاخواب شرمندہ تعبیرہونا مشکل ہے۔