مہنگائی: برداشت‘ عدم برداشت

مہنگائی کب سے ہے؟ پاکستان میں افراط زر کی شرح 1957ء سے سال 2022ء تک اوسطاً 8 فیصد رہی۔ اِس دوران دسمبر 1973ء میں 37.81فیصد مہنگائی کو تاریخ کی بلند ترین سطح قرار دیا جاتا رہا۔ معلوم ہوا کہ مہنگائی قیام پاکستان سے موجود تھی تاہم حالیہ چند برسوں میں اِس کی شرح غیرمعمولی طور پر بڑھتی چلی جا رہی ہے جس کے داخلی و خارجی محرکات ہیں۔مہنگائی کیوں ہے؟ مہنگائی کی بلند سطح کی اہم وجوہات میں سے ’بجٹ خسارہ‘ کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ 31جون 2022ء کے روز ختم ہونے والے مالی سال کے دوران وفاقی حکومت کا بجٹ خسارہ 6900 ارب روپے یا ملک کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 9فیصد تھا جبکہ حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لیتے ہوئے اِس تجویز سے اتفاق کیا تھا اور وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ بجٹ خسارہ 4.2فیصد تک کم کرے گی لیکن نہ تو حکومتی اخراجات کم ہوئے اور نہ ہی سرکاری اداروں کا قومی خزانے پر بوجھ ’حسب ِوعدہ‘ پورا کیا گیا۔ پاکستان میں مہنگائی برداشت سے عدم برداشت کا سفر طے کر رہی ہے۔ یوں تو مہنگائی پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس کی وجوہات میں کورونا وبا اور روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ’کساد بازاری‘ جیسے چیلنجز ہیں تاہم دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جیسا کہ چین اور جاپان کہ جہاں مہنگائی کی شرح نسبتاً کم ہے لیکن اگر کوئی بھی ملک اپنی آمدن (پیداوار میں اضافہ کرتے ہوئے) شرح نمو کے بلند اہداف حاصل نہیں کرتا تو وہاں مہنگائی بڑھتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے زرعی معیشت متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کی شرح پینتیس سے چالیس فیصد کے درمیان معلق ہے۔ مہنگائی کا عالمی تناظر بھی لائق توجہ ہے۔ امریکہ اور یورپ میں مہنگائی کی شرح گزشتہ تین دہائیوں میں اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ برطانیہ میں 10.1فیصد‘ جرمنی میں 8.5فیصد اور امریکہ میں 8.6فیصد ہے۔ افراط زر کی عام متوقع شرح قریب 2فیصد ہے چونکہ جاری موسم سرما کے دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 80فیصد اضافہ متوقع ہے اِس لئے ماہرین اقتصادیات اگلے سال تک برطانیہ میں افراط زر کی شرح میں بیس فیصد اضافے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اِسی طرح بنگلہ دیش میں توانائی کی بچت کے لئے دفتری اور کاروباری اوقات کم کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں مہنگائی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے لیکن اِس کے معلوم محرکات اور اسباب کے باوجود بھی خاطرخواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے۔ توانائی (بجلی و گیس) مہنگی ہونے کے باوجود اِس کا بیدردی سے استعمال جاری ہے۔ حکومتی اخراجات کم نہیں ہو رہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جبکہ درآمدی اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر سال دوہزاربائیس کے دوران 30فیصد سے زیادہ کم ہوئی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کے اثرات صحت اور علاج معالجے کے شعبوں کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔ اکتوبر میں علاج معالجے کے اخراجات 16.3فیصد تھے جو نومبر دوہزاربائیس کے دوران بڑھ کر 17فیصد سے زیادہ ہو چکے ہیں اور یہ وہ لازمی اخراجات ہیں جو کھانے پینے کی طرح ہیں۔ مجموعی طور پر توانائی (بجلی و گیس کی قیمتوں)‘ کھانے پینے اور علاج معالجے کے اخراجات کو دیکھا جائے تو اِن کی شرح میں کل اضافہ سوفیصد سے بھی زیادہ ہے۔ نومبر دوہزار بائیس (ایک مہینے کے دوران) پیاز کی قیمت 34 فیصد‘ آلو 14فیصد‘ مچھلی 7فیصد‘ انڈے 5فیصد‘ چینی 4 فیصد‘ خشک میوہ جات 12فیصد‘ خشک چائے 14فیصد اور گندم کی مصنوعات کی قیمتوں میں 2فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ نومبر دوہزاربائیس کے دوران تازہ سبزی کی قیمت میں 26فیصد جبکہ مختلف دالوں کی قیمت میں اوسطاً 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فوڈز اور نان فوڈز آئٹم (اشیاء و اجناس) کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لئے اگر دسمبر دوہزاربائیس میں بھی خاطرخواہ اقدامات نہ کئے گئے تو مہنگائی بڑھتی چلی جائے گی۔ مہنگائی کی بلند سطح کی اہم وجوہات میں بجٹ خسارے کا بڑا عمل دخل ہے۔ پاکستان میں تیل کی قیمتوں کو عالمی قیمتوں کے برابر رکھنے کے ’آئی ایم ایف‘ کے معاہدے کی منسوخی سے بجٹ خسارے پر مزید دباؤ پڑتا ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی حالیہ جائزہ رپورٹ میں خاص طور پر ان عوامل کا ذکر کیا گیا ہے جن کی وجہ سے افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ سیلاب نے ملک میں چاول‘ کپاس اور سبزی کی کاشت شدہ فصلوں کے بڑے رقبے کو تباہ کیا ہے اور بڑے پیمانے پر تباہی‘ سڑکوں اور پلوں کے نقصانات الگ ہیں اس کے نتیجے میں اجناس کی فراہمی (سپلائی لائن) پر دباؤ بڑھا ہے‘ جو اگلے سال تک برقرار رہ سکتا ہے۔ اِسی طرح دیگر ممالک بھی مہنگائی کی بلند ترین سطح کا سامنا کر رہے ہیں۔ ترکی میں افراط زر کی شرح 80فیصد‘ ایران میں 50فیصد اور مصر میں 13فیصد ہیں۔ سال 2022-23ء کے لئے تقریباً تین اعشاریہ دو فیصد کے گھریلو نمو کے تخمینوں کو حکومت نے مون سون کے تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے کم کر کے دو اعشاریہ پچھتہر فیصد کر دیا ہے‘ بین الاقوامی امداد کو ’این جی اوز‘ کی کوششوں سے بڑھایا جا سکتا ہے‘ غریبوں کیلئے ’بی آئی ایس پی‘ کی نقد امداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان میں معاشی مشکلات مسلسل سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں جو معاشی صورتحال کو مزید بگاڑ دے گی۔ آئی ایم ایف شرائط کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی اگر کم کی جائے گی تو اِس سے صارفین پر بوجھ بڑھے گا۔