گزرتے وقت کے ساتھ روزمرہ زندگی میں جو نمایاں بدلاؤ آیاہے اس میں انسان کی سہولت کے لئے نت نئی سائنسی ایجادات کا بھی عمل دخل ہے ان سے نہ صرف لائف سٹائل بدل گیا ہے بلکہ انسان تن آسان اور سہولت پسند ہوگیا ہے،ایک زمانہ تھا کہ غیر ملکی اشیاء کی خریداری کا بڑا مرکز خیبر کا قصبہ لنڈی کوتل ہوا کرتا تھا، پاکستان بھر سے یار لوگ برقی اشیاء اور کپڑا خریدنے آیا کرتے تھے میں بھی پہلی بار ساٹھ کی دہائی کے وسط میں گورنمنٹ کالج نو شہرہ کے طلبہ و طالبات کے ساتھ پاک افغان سرحددیکھنے آ یا تھا تو واپسی پر ہم لنڈی کوتل رکے تھے، خریداروں کا ایک ہجوم تھا،مگر پھر اس کی ساری گرم بازاری ساری رونق دیکھتے ہی دیکھتے باڑہ کے قصبے میں منتقل ہو گئی کیونکہ لنڈی کوتل پشاور سے دور اور باڑہ قریب تھا،، وہاں بھی مرد اور خواتین خریداروں کا وہی رونق میلہ لگ گیا اور پھر کسی کو لنڈی کوتل یاد بھی نہ رہا لیکن گزرتے وقت نے یہ بازار بھی اس طرح رہنے نہ دیا اس وقت دو باتیں ہوئیں تھیں ایک توانہی دنوں پشاور سے کراچی تک چھوٹی بڑی کئی ایک ”باڑہ مارکیٹیں“کھل گئیں، جس کی وجہ سے پنجاب سے آنے والے خریداروں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی اور دوسری بات یہ ہوئی کہ پشاور میں ”حیات آباد“ نام کی ایک جدید بستی آباد ہو گئی جس کے قریب ہی فیکٹریوں اور کارخانوں کا مرکز (انڈسٹریل سٹیٹ) تھا، اسی مرکز کے آس پاس باڑہ کی ساری دکانیں جیسے اڑ کر آ پہنچیں جس طرح لنڈی کوتل کو اجاڑ کر باڑہ نے خود آباد کیا تھا اسی طرح جلد ہی باڑہ کی بھی ساری گرم بازاری کو ان کارخانوں کے قریب بننے والی مارکٹیوں کے ایک چین نے نگل لیا،وجہ وہی کہ اب یہ پشاور سے اور قریب تھی لیکن وقت نے بھی بے وفا محبوب کی طرح کسی کا ایک کا ہو نا سیکھا ہی نہیں، پھر وقت کب اور کیسی چال چل جائے کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیتا، غالب یاد آگیا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
سو مان لیں کہ وقت کی ساری مہربانیاں وقتی ہی ہوتی ہیں اس لئے جب وقت مہربان ہو جائے تو کبھی اپنی اقدار اور وقار کو مجروح نہیں ہونے دینا چاہئے، پشتو ضرب المثل کا مفہوم یہ ہے کہ ”گاؤں ضرورچھوڑو مگر اپنی قدر و قیمت کو مت بھولو“ اس طرح جلد ہی کارخانو کی مارکیٹ میں دوسرے شہروں کے رہنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوں اور کچھ عرصہ تو پشاور کے باسی بھی کم کم جانے لگے کیونکہ دوسرے شہروں کی
طرح پشاور میں بھی کینٹ کی شفیع مارکیٹ اچانک ہی غیر ملکی اشیاء اور خریداروں سے بھر گئی،لیکن لنڈی کوتل اور باڑہ مارکیٹ کے بر عکس جب خریدار کم ہوئے تو ’کارخانوں مارکیٹ‘ میں نئے پلازا بنے اور ان میں ضروریات زندگی کی ہرچیزدستیاب کر دی گئی اس لئے گنتی کی چند دکانوں میں کپڑوں اور تھوڑی بہت برقی اشیا ء والی شفیع مارکیٹ ”کارخانو کی دور تک پھیلی ہوئی مارکیٹوں کا مقابلہ نہ کر سکی، اس لئے کارخانوں کی رونقیں نئے سرے سے بحال ہوئیں اور سر دست پھر سے عروج پر ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب لنڈی کوتل اور باڑہ کی مارکیٹ میں پشاور اور اس کے گرد و نواح کے خریدار جاتے یا پھر پنجاب سے خریدارآ کر خریداری کرتے تو راستے میں کئی جگہوں پر پولیس اورکسٹم کے اہلکاروں نے ناکے لگائے ہوتے، گاڑیوں کو روکتے، بسوں میں چڑھ کر تلاشی لیتے اور پھر ان میں سے بعض اہلکار چند روپوں سے غیر قانونی اشیا کو قانونی بنا کر خریداروں کو جانے دیتے، یہ ایک معمول کی سرگرمی تھی، یار لوگ سمجھتے تھے کہ چونکہ لنڈی کوتل اور باڑہ کے قصبے وفاق کے زیر انتظام اس ایجنسی میں شامل ہیں جنہیں تب بھی اور کسی حد تک اب بھی جب ان ایجنسیوں کا ادغام بھی ہو چکا، اس علاقے کو ”علاقہ ئ غیر کہتے ہیں، اس لئے یہ سارا غیر ملکی سامان جو افغانستان کے راستے کنٹینرز میں آتا ہے یا پھر ایجنسی کے باشندے پہاڑوں کے دشوار گذار راستوں سے پیدل یا خچروں پر لاد کر لاتے ہیں اور وہ راستے پولیس یا کسٹم حکام کی دسترس سے باہر ہیں مگر کارخانوں مارکیٹ تو پشاور کی نئی بستی ’حیات آباد‘ کے پہلو میں ہے تو یہ اشیا ء اگر غیر قانونی طریقے سے آئی ہیں تو وہاں کیا کررہی ہیں اور اگر یہاں تک ان کا پہنچنا جائز ہے تو پھریہاں سے خریدی ہوئی ایک دو اشیاء پر پکڑ دھکڑ کیسی،ان دنوں پنجاب کے خریداروں کی سہولت کے لئے ماضی میں یہ راستہ بھی کھل گیا تھا کہ وہ غیر ملکی قیمتی سامان خرید کر دکاندار کے ہی پاس چھوڑ جاتے اور دکاندار کے اپنے گماشتے بھاری رقم کے عوض وہ اشیا ء ان کے علاقوں اور گھروں تک بحفاظت پہنچا دیتے، بلکہ ان دنوں یہ واقعہ یا چٹکلا بھی آج کی زبان میں وائرل ہوا تھا کہ ”ایک صاحب نے کلاشنکوف خریدی اور دکاندار کو گھر تک پہنچانے کی الگ سے ایک بھاری رقم بھی دے دی، دکاندار نے اسے کہا کہ جب آپ لاہور پہنچ جائیں تو مجھے فون کر دیں، ان صاحب نے لاہور پہنچ کر فون کیا، دکاندار نے پوچھا کہ خیریت سے پہنچ گئے، ان صاحب نے کہا میں تو خیریت سے پہنچ گیا ہوں میری کلاشکوف کب پہنچی گی، دکاندار نے کہا کہ جناب آپ خیریت سے پہنچ گئے تو سمجھو کلاشکوف بھی پہنچ گئی ہو گی۔ ان صاحب نے کہا میں سمجھا نہیں تو دکاندار نے کہا کہ کلاشکوف آپ کی گاڑی کے نیچے بندھی ہوئی ہے کھول لیجئے۔ کل غالب نے بھی یہی کہا تھا کہ
ہو لئے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
خیر کلاشکوف کا واقعہ تو ایک چٹکلا تھا مگر ایسے بہت سے لوگ تب موجود تھے جو ذرا سے معاوضہ پر آپ کا مارکیٹ سے خریدا ہوا غیر ملکی سامان گھر پہنچا دیتے، پھر جب پولیس نے قدرے سختی شروع کی تو سب کے علم میں تھا کہ خیبر پختونخوا کی پولیس اپنے علاقے کی روایات کے مطابق خواتین کا از حد احترام کرتی ہے اور ان کے حوالے سے ”ہاتھ ذرا ہولا رکھتی ہے تو اس کام کے لئے خواتین کی خدمات لی گئیں اور بعد ازاں ایسے لوگوں کو کارندہ بنایا گیا جو بوجوہ چل پھر نہیں سکتے تھے پاؤں سے محروم تھے، ان کے لئے سپیشل لوگوں والے موٹر بائیک خریدے گئے اور چھوٹا سا ٹرالر ساتھ لگا کر درجنوں غیر ملکی کپڑے کے تھان کارخانو مارکیٹ سے پشاور کی مارکیٹوں کو پہنچائے جاتے اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے آج بھی پشاور کی مصروف شاہراؤں پریہ سپیشل جوان بہت تیز رفتاری سے سامان کی نقل و حرکت کرتے نظر آتے ہیں اور ”خدا ترس“ حکام انہیں روکتے ٹوکتے نہیں، یہ جواز بھی دیا جاتا ہے کہ کپڑا پاکستانی ہوتا ہے مگر اس پر کسی اور ملک کی مہر لگا دی جاتی ہے ممکن ہے ایسا بھی ہولیکن وقت وقت کی بات ہے اب عام آدمی سے لے کر افسران بالا اور حکام اعلی نے ان باتوں پر اپنا وقت ضائع کرنا چھوڑ دیا، بہر حال یہ کھیل بھی وقت کا ہے جو ڈھیل بھی دیتا ہے اور گرفت بھی سخت رکھتا ہے، مولانا ظفر علی خان کاایک حمدیہ شعر دیکھئے
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا