ڈپٹی کمشنر پشاور نے بالاخر وہ فیصلہ کیا جس کا اس شہر کے باسیوں کو ایک عرصے سے انتظار تھا۔ ڈی سی نے دفعہ 144کے تحت اسمبلی چوک اور خیبر روڈ پر احتجاجی مظاہروں پر ایک ماہ کے لئے پابندی لگانے کے احکامات جاری کردیئے۔سرکاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسمبلی چوک ایک باٹل نک ہے یہاں راستہ بند ہونے سے پورے شہر کی ٹریفک معطل ہوتی ہے یہیں سے لوگ اپنے دفاتر، کالج، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کو جاتے ہیں ایمبولنس گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنس جانے کی وجہ سے انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہوتا ہے۔ ماضی میں بار ہا ایسے سانحات رونما ہوئے ہیں کہ ایمبولنس یا پرائیویٹ گاڑی میں کسی مریض کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے سڑکوں پر احتجاج کی وجہ سے مریض ہسپتال نہیں پہنچ پاتے اور طبی امداد نہ ملنے سے دم توڑ دیتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ خواتین کو زچگی کے لئے ہسپتال لے جاتے ہوئے گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنس جاتی ہیں نہ جانے کیوں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک آپ احتجاج، گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ نہیں کریں گے۔ حکومت آپ کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتی۔ خرابی بسیار کے بعد مسئلے کے حل پر توجہ دی جاتی ہے۔ پشاور کی شاہراہوں پر احتجاجی مظاہرے روز کا معمول بن گئے ہیں کبھی ایک تنظیم یا پارٹی میدان میں نکلتی ہے تو کبھی دوسری تنظیم یا پارٹی۔ اس کی ذمہ داری کسی حد تک ہماری انتظامی مشینری پر عائد ہوتی ہے جہاں معاملات سست روی کا شکار ہیں اور کام نہ ہونے یا تاخیر کا شکار ہونے کی صورت میں لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگر تحریری شکایت پر مسئلے کے حل پرفوری توجہ دی جائے تو لوگوں کو احتجاج کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتیں شہر کے مصروف چوراہوں پر جلسے کرنے کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ راہ چلتے لوگ بھی جلسوں میں شامل ہوں اور بڑا اجتماع نظر آئے۔ ان جلسے جلوسوں کی وجہ سے ٹریفک جام رہتی ہے۔ بازار بند ہوجاتے ہیں اور کروڑوں اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔احتجاج صرف پاکستان میں نہیں ہوتا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے، جلوس اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں لیکن وہاں جلسے جلوسوں سے کاروبار زندگی متاثر نہیں ہوتا۔ کھلے مقامات پر جلسے منعقد کئے جاتے ہیں یا سڑک کے ایک حصے کو جلوس گذارنے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے اور ٹریفک معمول کے مطابق چل رہی ہوتی ہے۔ ماضی میں خیبر بازار اورشعبہ بازار کے سنگم پر سوئیکارنو چوک سیاسی جلسوں کا مرکزرہا ہے۔ یہ ایک غلط رجحان ہے کہ دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کرکے ہم اپنے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والی آزار پسندی کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہم نہ صرف دوسروں کو دکھ دے کر خوش ہوتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی آزار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے عوامی مشکلات کے پیش نظر شہر کے مصروف ترین چوراہے اور شاہراہ پر جلسے جلوس اور احتجاج پر پابندی لگا کر ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ یہ پابندی صرف ایک مہینے کے لئے نہیں، بلکہ مستقل طور پر عائد رہنی چاہئے تاکہ اہل پشاور سکھ کا سانس لے سکیں۔