پاکستان ایسا واحد زرعی ملک ہے جس نے گزشتہ سال 1 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی گندم یا دیگر غذائی مصنوعات درآمد کیں اور یوں دنیا کا 13واں بڑا گندم کا درآمد کنندہ بننے کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان بنیادی طور پر یوکرین سے قریب پچاس لاکھ ڈالر‘ روس سے قریب چالیس لاکھ ڈالر‘ جرمنی سے قریب 9 کروڑ ڈالر‘ فرانس سے قریب 1 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اور بلغاریہ سے ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر مالیت کی گندم درآمد کرتا ہے۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے سندھ میں گندم کی فصل متاثر ہوئی ہے جبکہ پنجاب میں پیدا ہونے والی گندم صوبے کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے بھی ناکافی قرار دی گئی ہے۔ ایسی صورت میں گندم کی درآمد ناگزیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں سالانہ دو کروڑ دس لاکھ ملین میٹرک ٹن گندم ہوتی ہے جسے گزشتہ سال دو کروڑ بیس لاکھ میٹرک ٹن تک بڑھا دیا گیا تھا لیکن موسمیاتی تبدیلیوں نے اِس منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا۔پاکستان میں گندم اہم غذا ہے اور اِس کی سالانہ کھپت قریب 125کلوگرام فی شخص ہے‘ جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ گندم اور گندم سے بنی ہوئی مصنوعات ملک اجناس سے حاصل کی جانے والی کل کیلوریز کا ساٹھ سے ستر فیصد ہیں اور جیسے جیسے آمدنی اور شہری آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے صارفین پھل‘ سبزی‘ گوشت اور دودھ کی مصنوعات کا استعمال زیادہ کرنے لگے ہیں لیکن کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے لئے گندم کیلوریز حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔پاکستان کے بنیادی پالیسی اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ قومی ضروریات کے مطابق گندم کی پیداوار حاصل کی جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو گندم درآمد کی جائے جو ایک مہنگا اُور غیرپائیدار عمل ہے۔ حکومت کی جانب سے ہر سال گندم و دیگر اجناس کی فصلوں میں اضافے کے لئے زیادہ اہداف مقرر کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان جس انداز سے موسمیاتی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہے اُنہیں مدنظر رکھتے ہوئے باوجود کوشش بھی گندم کی ایسی خاطرخواہ پیداوار حاصل نہیں ہو رہی جو کم سے کم ملکی ضروریات ہی کے لئے کافی ہو۔ حکومت کی جانب سے گندم اُور دیگر فصلوں کے پیداواری اخراجات کم کرنے‘ سستا آٹا فراہم کرنے کے لئے فلور ملوں اُور رعائتی داموں آٹا
فروخت کرنے کے لئے اجناس ڈیلروں کو سبسڈی سبسڈی دی جاتی ہے لیکن یہ عمل کسی بھی طرح مسئلے کا حل ثابت نہیں ہو رہا۔ سال 1990ء میں پاکستان میں گندم کی پیداوار 1 کروڑ 44 لاکھ ٹن تھی۔ سال 2011ء میں یہ ڈھائی کروڑ ٹن سے زیادہ رہی اور اگر گزشتہ 20 برس کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو گندم کی پیداوار میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن مسئلہ آبادی کا ہے کہ اِن بیس برس میں پاکستان کی آبادی (1.85 فیصد سالانہ کے) تناسب سے بڑھی ہے لیکن قومی و معاشی ترقی سست رہی۔ سال 2022ء میں 2 کروڑ 64لاکھ ٹن پیداوار حاصل ہوئی جو سال 2021ء کے دوران 2 کروڑ 75 لاکھ ٹن تھی۔ رواں برس (2023ء) کے لئے گندم کے پیداواری امکانات محدود اور صورتحال انتہائی غیر یقینی کا شکار ہے۔ تاحال واضح نہیں ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی کمی پورا کرنے کے لئے دیگر علاقوں میں گندم کی زیادہ کاشت کی گئی ہے یا نہیں۔ گندم کی پیداوار میں سست نمو نے پاکستان کا غیر ملکی سپلائی (درآمدات) پر مجبوراً انحصار بڑھا دیا ہے۔ پاکستان ہر سال دو سے تین ملین ٹن گندم درآمد کرتا ہے جو اِس کی کل ضروریات کا تقریباً دس فیصد ہیں تاہم درآمد شدہ گندم پر انحصار تشویش کا باعث ہے۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی منڈیاں اُتار چڑھاؤ اور ہنگامہ خیزی سے دوچار ہیں۔ گندم کے حوالے سے مشکلات کا آغاز 2019ء سے ہوا جب حکومت نے اندازہ لگایا کہ گندم ملکی کی ضرورت سے زیادہ (سرپلس) ہے اور اِس وجہ سے 5 لاکھ ٹن گندم برآمد (عالمی منڈی میں فروخت) کر دی جائے اور یہ ایک ایسا غلط فیصلہ تھا جس کے نتائج آج بھی پاکستان بھگت رہا ہے۔ ملک میں گندم کی قلت ہوئی۔ گندم کی قیمت بڑھی اور آج تک مسلسل بڑھے جا رہی
ہے۔ حکومت نے اپنے غلط فیصلے کو درست کرنے کے لئے گندم مہنگے داموں دوبارہ درآمد کی۔ سرکاری فیصلہ سازی اُور گندم کی برآمد کی اجازت دینے سے جڑی بدعنوانیوں کی تحقیقات بھی کی گئیں لیکن یہ سب بے سود رہیں کیونکہ پاکستان میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں جس میں فیصلہ سازی عوام کے مفاد میں کی گئی ہو اور سرمایہ دار طبقات کو سزائیں ہوئی ہوں۔گندم کے جاری بحران سے نمٹنے کی واحد صورت یہی ہے کہ ملکی پیداوار بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت گندم کی اوسط پیداوار تقریباً تین ٹن فی ہیکٹر ہے‘ جو کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ پیداواری نظام میں نسبتاً آسان تبدیلیوں جیسا کہ زیادہ رقبے پر کھیتی باڑی اور تصدیق شدہ بیجوں کے استعمال میں اضافہ سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح سیڈ ڈرلز اور درست مقدار میں درست کھاد کا استعمال جو مٹی کی خصوصیات کے مطابق ہو پیداوار میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ جدید زراعت میں مائیکرو نیوٹرینٹس کے استعمال کے ذریعے بھی پیداوار بڑھانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ پاکستان میں زراعت کو درپیش خطرات میں بڑھتی ہوئی آبادی‘ زرعی اراضی کا غیرزراعت مقاصد کے لئے استعمال اور یکساں بڑا خطرہ ’موسمیاتی تبدیلیوں‘ کا ہے‘ جس کی وجہ سے انواع و اقسام کے مسائل پیدا ہوئے ہیں لیکن حالیہ سیلاب سے بلوچستان کے کئی بنجر علاقوں میں ہریالی بھی آئی ہے اور وہاں کے زیرکاشت رقبے میں اضافے کی اطلاعات ہیں۔ حکومتی دلچسپی سے گندم کے ممکنہ زیرکاشت رقبے میں اضافہ ممکن ہے لیکن اِس کے لئے پانی ذخیرہ کرنے کے لئے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر اور پانی کی کھیتوں تک رسائی کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال خاطرخواہ مفید نتائج دے سکتا ہے۔ گزشتہ مون سون سیزن کی وجہ سے جن بارانی علاقوں کی مٹی میں نمی ذخیرہ ہو گئی ہے وہاں گندم کی زیادہ رقبے پر کاشت ممکن ہے جبکہ آئندہ مون سون سیزن کی بارشوں سے قبل پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات مکمل کر لینے چاہئیں جو غذائی تحفظ کو ممکن بنانے میں عملاً مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِن تبدیلیوں اور اختراعات کے لئے زیادہ مؤثر‘ متحرک پیداواری نظام اور بہتر اِن پٹ‘ بہتر ٹیکنالوجی‘ بہتر مشینری‘ زرعی آلات اور بہتر زرعی تربیت یافتہ تکنیکی عملے کی ضرورت ہے۔