جیتی ہوئی بازی ہارنے کا دکھ

پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان راولپنڈی ٹیسٹ ریکارڈ ساز رہا۔انگلش ٹیم نے کرکٹ کی 132سالہ تاریخ میں ایک دن میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا‘ راولپنڈی کی مردہ پچ تین دن تک گیند بازوں اور آخری دو دن بلے بازوں کا قبرستان بنا رہا۔ انگلینڈ کی ٹیم نے اپنی پہلی اننگ میں 657رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔جس میں زیک کرالے کے 122، بین ڈکٹ کے 107، اولی پوپ کے 108 اور ہیری بروک کے جارحانہ 153رنز بھی شامل تھے۔جواب میں پاکستان کی ٹیم نے بھی اچھی بلے بازی کی۔ عبداللہ شفیق نے 114، امام الحق نے 121اور کپتان بابر اعظم نے 136رنز بنائے‘ پاکستان کی ٹیم نے 579کا مجموعہ ترتیب دیا‘ کھیل کے تیسرے دن چائے کے وقفے کے بعد پچ میں تبدیلی آگئی اور گیند گھومنے لگی۔ انگلینڈ نے اپنے دوسری اننگ سات وکٹوں کے نقصان پر 264رنز پر ختم کرنے کا اعلان کردیا۔اور پاکستان کو میچ جیتنے کیلئے 342رنز کا ہدف دیدیا۔ انگلینڈ نے یہ تاریخی کرکٹ میچ پاکستان کو 74رنز سے ہرا کر 
جیت لیا۔ ایک مرحلے پر جب پاکستان کے ابتدائی پانچ کھلاڑی کریز پر تھے اور آزادنہ رنز بنا رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ پاکستان میچ کے آخری دن چائے کے وقفے تک جیت اپنے نام کرلے گا۔ مگر پانچویں وکٹ گرنے کے بعد پاکستان کی وکٹیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرنے لگیں اور پوری ٹیم 268رنز پرڈھیر ہوگئی۔ کرکٹ بلاشبہ نہایت غیر یقینی کھیل ہے۔ ایک اوور میں 36رنز بھی بن سکتے ہیں اور چھ وکٹیں بھی گر سکتی ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی کی صلاحیتوں کے امتحان کا کھیل ہے۔ اس میں منصوبہ بندی، مستعدی اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ہی کامیابی ملتی ہے۔ سابق بھارتی کپتان سنیل گواسکر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ٹیم دنیا کی سب سے خطرناک ٹیم ہے۔ جو دن پاکستانی ٹیم کا ہو۔اس دن دنیا کی کوئی بھی ٹیم اسے زیر نہیں کرسکتی‘ گواسکر کی یہ بات درست ہے مگر پاکستان کا ایسا خوش قسمت دن کبھی کبھار ہی آتا ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ دبا ؤمیں بہت جلدی آجاتے ہیں جب ایک دو وکٹیں گر جائیں تو بعد میں آنے والوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور انہیں گیند گولی نظر آتی ہے۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہمارے کوچ اور کپتان کھلاڑیوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں اس طرح وہ نہ صرف اوور ضائع کرتے ہیں بلکہ کوئی خاطر خواہ رنز بھی نہیں بناپاتے۔ اور ٹیم پر پریشر مزید بڑھانے کا سبب بنتے ہیں اگر کھلاڑیوں کو دفاع کے بجائے اپنا فطری گیم کھیلنے کی اجازت دی جائے۔تو وہ کچھ رنز تو ٹیم کے مجموعے میں ڈال سکیں گے۔ کرکٹ سمیت کسی بھی کھیل میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے والی ٹیمیں کبھی بھی وکٹری سٹینڈ پر نہیں پہنچ سکتیں۔آپ حملہ آور ہوں گے تو سامنے والا دفاعی پوزیشن اختیار کریگا‘ جب 
آپ دفاع پر جائیں گے تو سامنے والے کو حملہ کرنے کا موقع دیتے ہیں اور ہمیشہ حملہ کرنے والا ہی بہادر ہوتا ہے اور جیت ہمیشہ بہادر کی ہوتی ہے یہ بات کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں، باؤلنگ اور بیٹنگ کوچ، کپتان اور نائب کپتان سمیت تمام کھلاڑیوں کو گرہ میں باندھنا ہوگا‘ کہوار زبان کی ایک کہاوت ہے کہ جس کھیت کی زرخیزی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے وہاں گھاس بھی نہیں اُگتی‘ یہی محاورہ ہمارے چند سرکردہ کھلاڑیوں پر صادق آتا ہے۔ انہوں نے رینکنگ میں کچھ عرصہ اچھی پوزیشن کیا حاصل کی کہ ان کا دماغ آسمان پر چڑھ گیا۔ اور ان کی کارکردگی پر توجہ ہٹ گئی اور آج وہ ٹیم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔روالپنڈی ٹیسٹ کو پاکستان کی خراب باؤلنگ اور انتہائی خراب بیٹنگ کی وجہ سے عرصے تک یاد رکھا جائے گا‘ ہم نے جیتی ہوئی بازی ہاری ہے۔ جس سے کرکٹ کے شائقین کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔قومی ٹیم کے حوالے سے یہ بالکل صحیح کہا جاتا ہے کہ اگر بہترین کارکردگی پر آئے تو کوئی ٹیم مقابلہ نہیں کرسکتی اور بدترین کارکردگی میں بھی سب کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔