کرہئ ارض پر صرف انسان ہی آباد نہیں بلکہ انسانوں کے علاوہ دیگر سبھی معلوم اور نامعلوم جانداروں پر مشتمل قدرت کی جانب سے بنایا گیا ’حیاتیاتی تنوع‘ ہر جاندار کے دوسرے جاندار سے تعلق پر مبنی ایک ایسا جامع و مربوط نظام ہے کہ اِس میں کسی ایک کو نقصان یا خطرے پورے ’حیاتیاتی تنوع‘ میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ انسانی معاشروں نے اپنے ارتقائی ادوار میں ’ماحولیاتی تنوع‘ کا خاطرخواہ احساس نہیں کیا اور فطرت کے بنائے ہوئے نظام کو برقرار رکھنے کے لئے بہت ہی کم توجہ دی گئی۔ ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گردوپیش میں حیاتیاتی تنوع کے بارے میں زیادہ فکرمندی کا مظاہرہ نہ کرنے کی وجہ سے جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اُس سے جانوروں اور پودوں کی دس لاکھ انواع ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکتی ہیں جبکہ ایسی ہزاروں انواع پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں یا بہت سے جانوروں اور پودوں کو معدوم ہونے کا خطرہ کرہئ ارض پر منڈلا رہا ہے۔’بائیو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروسز پر انٹر گورنمنٹل پلیٹ فارم‘ کے زیراہتمام ہوئی ایک حالیہ عالمی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں پچاسی فیصد سے زیادہ آبی زمینیں ختم ہو چکی ہیں‘ جبکہ 75 فیصد زمین اور 66فیصد سمندر میں موجود حیاتیاتی تنوع نمایاں طور پر متاثر یا تبدیل ہو چکا ہے۔ حیاتیاتی تنوع بحران زمین پر زندگی کے لئے اتنا ہی سنگین خطرہ ہے جتنا کہ موسمیاتی تبدیلی لیکن اِس کے پیمانے اور اس سے وابستہ خطرات پر بہت ہی کم بات ہوتی ہے اور حیاتیاتی تنوع کو نسبتاً کم اہمیت دی جاتی ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں خاص و عام کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے میں ذرائع ابلاغ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ’حیاتیاتی تنوع (دیگر ہم زمین جانداروں کی زندگی اور ضروریات کا کماحقہ خیال رکھنے)‘ کے حوالے سے خاطرخواہ بیداری نہیں پائی جاتی جو اپنی جگہ ایک الگ ضرورت ہے۔حیاتیاتی تنوع پر اقوام متحدہ کا کنونشن (عالمی اجلاس) آج (سات دسمبر) سے شروع ہو رہا ہے جو اُنیس دسمبر تک جاری رہے گا۔ کینیڈا کے صوبے کیوبک کے شہر مونٹریال میں ہونے والے اِس اہم اجلاس طلب کرنے کا مقصد قدرت کے بنائے ہوئے توازن میں بگاڑ اور اِس کی تباہی سے جڑے نقصانات روکے جائیں یا اِن نقصانات کو کم یا واپس (ریورس) کرنے کے لئے نیا عالمی حیاتیاتی تنوع کا لائحہ عمل (فریم ورک) تیار کیا جا سکے۔ ریو میں ہوئی 1992ء کے ’ارتھ سمٹ‘ اقوام متحدہ کا مذکورہ کنونشن قائم کیا گیا تھا جسے ’سی بی ڈی‘ بھی کہتے ہیں اور یہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ‘ اس کی جزئیات کو سمجھنے‘ پائیدار طریقے سے استعمال اور جینیاتی وسائل کے منصفانہ و مساوی فوائد بانٹنے کے لئے حکمت عملیوں کا مجموعہ ہے جسے کے لیے اقوام متحدہ کے رکن ممالک اکٹھا ہوئے ہیں۔کنونشن کی گورننگ باڈی ’کانفرنس آف پارٹیز کنونشن‘ کے نفاذ اور نئے فیصلوں کیلئے مشاورت اُور باقاعدہ اجلاس کرتی ہے جو ابتدا میں سالانہ بنیادوں پر منعقد ہوتے رہے لیکن اب ہر دو سال بعد طلب کئے جاتے ہیں۔ پندرہویں ’سی او پی‘ جو اصل میں دوہزار بیس میں چین کے شہر کنمنگ میں شیڈول تھی‘ کورونا وبا کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی اور اس کے بعد اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پہلا حصہ گزشتہ سال کنمنگ میں ہائبرڈ فارمیٹ میں منعقد ہوا اور اِس اجلاس میں جن امور پر اتفاق ہوا اُنہیں ’کنمنگ اعلامیہ‘ کہا جاتا ہے‘ جسے عالمی سطح پر تسلیم (اپنایا) گیا اور اِس اعلامیے کی خاص بات یہ تھی کہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا جبکہ رکن ممالک کے لئے عالمی معیشت کے تمام شعبوں میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سیشن کا دوسرا حصہ مونٹریال (کینیڈا) میں ’عالمی حیاتیاتی تنوع‘ کے فریم ورک کو حتمی شکل دینے کے لئے دوبارہ شروع ہوگا جس میں سال دوہزاردس کے دوران وضع کردہ ’ایچی بائیو ڈائیورسٹی اہداف‘ پر نظرثانی کی جائے گی۔ ’ایچی‘ کے اہداف میں دیگر امور کے علاؤہ حیاتیاتی تنوع کی اقدار کو قومی و مقامی ترقی اور غربت میں کمی کی حکمت عملیوں میں ضم کرنا شامل ہے۔ حیاتیاتی تنوع کے لئے نقصان دہ سبسڈی ختم کرنے‘ رہائش کا نقصان کم کرنے‘ آلودگی کم کرنے‘ محفوظ علاقوں کو بڑھانے‘ بہتر بنانے اور مالی وسائل کو متحرک کرنے کے وعدے شامل تھے۔ اِس سلسلے میں سٹریٹجک پلان کے مؤثر نفاذ کے لئے تمام ممکنہ ذرائع اور وسائل کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا تاہم اب تک حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے جس قدر بھی کوششیں کی گئیں ہیں اُن سب کی قدر مشترک سست پیشرفت اور بے ترتیبی ہے جن کی وجہ سے اعلیٰ ترین اور ضروری اہداف کا تعین تو کر لیا جاتا ہے لیکن اُنہیں مکمل طور پر حاصل کرنے کے لئے خاطرخواہ کوشش نہیں کی جاتی۔ دریں اثنا‘ ایک خاموش قاتل کی طرح‘ حیاتیاتی تنوع کا نقصان زمین پر فطرت کے لائف سپورٹ سسٹم کے پیچیدہ نیٹ ورک کو مہلک نقصان پہنچاتا رہا۔دنیا حیاتیاتی تنوع کی بحالی‘ ضرورت و اہمیت کو سمجھتی ہے لیکن اِسے حاصل کرنے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک موقع ضائع کر رہی ہے۔ مواقعوں کے اِس ضیاع کو پورا کرنے کے لئے سال دوہزاربیس کے بعد کے ’بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک‘ تیار کیا گیا جس پر کام تین سال قبل شروع ہوا تھا اور اس میں تاحال مسلسل پیشرفت ہو رہی ہے۔ گزشتہ منصوبوں کی بات کی جائے تو نئے فریم ورک کی تجویز میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ‘ بیداری اور مختلف حیاتیات (ہم زمین جانداروں) کے معدوم ہونے کے خطرات کم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ متنازعہ موضوعات میں سے ایک یہ ہے کہ اِس متعلق عالمی کنونشن کو نافذ کرنے کے لئے جن اضافی مالی و تکنیکی وسائل کی ضرورت ہے‘ وہ وسائل پاکستان جیسے غریب (ترقی پذیر) ممالک کے پاس نہیں اور اِسی وجہ سے عالمی سطح پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حیاتیاتی تنوع میں آئے بگاڑ کو درست کرنے اُور مستقبل میں حیاتیاتی تنوع کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے جن کا مقصد فطرت کا تحفظ ہے کے لئے غریب (ترقی پذیر) ممالک کی مدد کی جائے۔حالیہ مونٹریال اجلاس ’شرم الشیخ‘ میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (COP27) کے تناظر اور تسلسل میں ہو رہا ہے جو گلوبل وارمنگ سے متاثرہ غریب (ترقی پذیر) ممالک کی مدد کے لئے امدادی فنڈ کے قیام پر پہلے ہی سے اتفاق رائے رکھتا ہے اور اِس امید افزا نتیجے پر ختم ہوا تھا کہ ترقی پذیر ممالک بالخصوص ’گلوبل ساؤتھ‘ کے ممالک (جن میں پاکستان بھی شامل ہے) کو لاحق موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا مل کر مقابلہ کیا جائے۔ سمجھنا ہوگا کہ ’حیاتیاتی تنوع‘ کو پہنچنے والا نقصانات (منفی اثرات) موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ مختلف (یا الگ) نہیں اور یہ درحقیقت ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں۔