سات سمندر پار امریکہ سے تازہ خبر آئی ہے کہ ٹامپا شہر کی پولیس چیف کو چالان سے بچنے کے لئے ٹریفک وارڈن سے اپنا تعارف کرانے پر عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ریاست فلوریڈا کے شہر ٹامپا میں خاتون پولیس چیف اپنے شوہر کے ہمراہ گاڑی میں گالف کورس جارہی تھی۔ راستے میں ٹریفک پولیس اہلکار نے انہیں روکا۔ٹریفک پولیس اہلکار نے گاڑی کی نمبر پلیٹ نہ ہونے اورپولیس چیف کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پر انہیں چالان کرنے کی کوشش کی۔چالان سے بچنے کے لئے پولیس چیف نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بیج لہرایا اور کہا کہ امید ہے وہ اسے جانے دیں گے۔یہ منظر اہلکار کے لباس میں موجود کیمرے میں فلمبند ہوگیا۔واقعے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد گزشتہ ہفتے خاتون پولیس چیف نے اپنے طرز عمل پر معافی بھی مانگی تھی لیکن اب انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑگیا ہے۔رپورٹس کے مطابق ٹامپا پولیس چیف نے گزشتہ روز ادارہ جاتی تحقیقات کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے جس کی تصدیق ٹامپا شہر کے میئر جان کیسٹر نے کی ہے۔ میئر کا کہنا تھاکہ پولیس چیف نے اخلاقیات کے اصولوں کو توڑا اور انہوں نے اپنی پوزیشن یا شناخت کے غلط استعمال سے متعلق پالیسیوں کی خلاف ورزی کی۔جس پر انہیں عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون واقعی اندھا ہوتا ہے وہ کسی کو عہدے اور اثرورسوخ کی بنیاد پر نہیں پہچانتا۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر قانون توڑنے کی کوشش امریکی صدر بھی کرے تو وہ قانون سے نہین بچ سکتا۔قانون کی حاکمیت جس معاشرے میں ہو۔ اسے ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ برطانیہ کو پارلیمانی جمہوریت کا ننھیال قرار دیا جاتا ہے۔ وہاں کا وزیراعظم ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے ایک چھوٹے سے بنگلے میں رہتا ہے۔ وزیراعظم، اس کی اہلیہ کو اپنے گھر کے کام خود کرنے پڑتے ہیں اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہیں۔ بچوں کو سکول چھوڑنے وزیراعظم یا خاتون اول خود جاتی ہیں۔ راستے میں ٹریفک سگنل بند ہو تو اسے بھی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ دوسری جانب ہم ہیں جہاں ہر کسی کی کوشش ہے کہ قانون میں اپنے لئے کوئی ایسا گوشہ تلاش کرے جس کے ذریعے وہ دوسروں سے ممتاز نظر آئے یہ ایک پوری طرح عادت بن چکی ہے ہمارے معاشرے کی کہ قانون کی پابندی کو کمزوری سمجھا جاتا یہ اور جو قانون کی خلاف ورزی کرے اسے ایک طرح سے معاشرے میں نمایاں مقام کا حامل سمجھا جاتا ہے جو یکسر غلط ہے‘ہمارے ہاں تو ون وے سڑکوں پر جاتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی ایک عام روش ہے اور یہاں تک کہ خود پولیس کی گاڑیاں بھی ایسا کرتی دکھائی دیتی ہیں، ایسا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کسی کے مقام کا پیمانہ دولت اور پیسہ ہی بن گیا ہے۔ اس لئے ہر کسی کی کوشش ہے کہ وہ پیسے والا بن جائے چاہے وہ دولت قانونی اور جائز طریقے سے حاصل کی گئی ہے یا کرپشن، بلیک مارکیٹنگ یا منی لانڈرنگ سے بنائی گئی ہے۔ ایک دور وہ تھا کہ بھرے دربار میں ایک عام آدمی امیرالمومنین سے پوچھنے کی جرات کرتا تھا کہ مال غنیمت سے اسے جوکپڑا ملا ہے اس کا صرف کرتا بن گیا۔ خلیفہ نے کرتے کے ساتھ شلوار بھی اسی کپڑے کی بنائی ہے یہ اضافی کپڑا کہاں سے آیا۔ حضرت عمر فاروقؓ کو وضاحت دینا پڑی کہ ان کے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا انہیں دیا تھا جس کی انہوں نے شلوار بنادی۔ قانون کی حاکمیت کی اس سے بہتر مثال دنیا پیش نہیں کرسکتی۔ اسی قانون کی حاکمیت کی وجہ سے مسلمانوں نے ہفت اقلیم پر حکمرانی کی اور جب ہم نے خود کو قانون تصور کرنا شروع کردیا تو غربت اور محکومیت کی آتھاہ گہرائیوں میں گر گئے۔