سال دوہزاراکیس تک‘ افغانستان میں ڈوڈے کی فصل اِس قدر بڑے پیمانے پر کی گئی کہ اِس سے عالمی سطح پر 90فیصد سے زیادہ ہیروئن تیار ہوئی تاہم نشہ آور اجناس کی پیداوار کے لحاظ سے حقائق تلخ ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات نے افغانستان سے متعلق ’تحقیقی رپورٹ برائے سال 2022ء‘ جاری کی ہے۔ اِس نئی اور تفصیلی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ”افغانستان میں 2022ء کی اَفیون کی فصل گزشتہ کئی برسوں کے مقابلے زیادہ رہی اور آج بھی ڈوڈے (افیون) کی فصل سب سے زیادہ منافع بخش ہے جس کی کاشت میں قریب ایک تہائی اِضافہ ہوا ہے اور قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے رواں برس (دوہزاربائیس) ڈوڈے کے کاشتکاروں اور افیون کے تاجروں کو اضافی مالی فائدہ بھی حاصل ہوا ہے۔اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا عنوان ”افغانستان میں افیون کی کاشت‘ تازہ ترین نتائج اور ابھرتے ہوئے خطرات“ رکھا گیا ہے۔ طالبان نے اقتدار اگست دوہزاراکیس میں سنبھالا جس کے بعد سے افیون کی غیر قانونی معیشت پر یہ عالمی پہلی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد افیون (پوست) اور دیگر منشیات کی کاشت پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پوست کی کاشت کے حوالے سے جب پابندی کا اعلان کیا جاتا ہے تو اِس پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہو پاتا اور کئی ایسی مثالیں بھی بیان کی جاتی ہیں کہ دارالحکومت کابل سے دور دراز کے اضلاع میں پوست کی کاشت سے دارالحکومت باخبر بھی نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ پوست افغانستان کی زرعی معیشت میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والی اِس فصل کو دیگر فصلات پر ترجیح دی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے حالیہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ ”افغان کسان افیون کی غیر قانونی معیشت میں پھنسے ہوئے ہیں‘ جب کہ افغانستان کے ارد گرد قبضے کے واقعات بتاتے ہیں کہ افیون کی سمگلنگ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ عالمی برادری کو افغان عوام کی ضروریات پورا کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے اور جرائم پیشہ گروہوں کو ہیروئن کی سمگلنگ اور دنیا بھر کے ممالک میں لوگوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لئے تیزی سے بطور ردعمل ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے جس سے افغان کاشتکار کو مالی فائدہ ہو اور وہ پوست کی بجائے دیگر فصلوں کی جانب توجہ کرے۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں اِس سال پوست کی کاشت پچھلے سال کے مقابلے میں 32فیصد زیادہ رقبے پر ہوئی ہے اور یوں پوست کی کاشت کا کل رقبہ بڑھ کر 2 لاکھ 33 ہزار ہیکٹر تک پہنچ گیا ہے اور اگر پوست کے زیر کاشت رقبے کا موازنہ دیگر فصلوں سے کیا جائے تو یہ پوست افغانستان کی تیسری بڑی فصل ہے‘ جس کی کاشت زیادہ تر جنوب مغربی علاقوں میں کی جاتی ہے اور یہ علاقے افغانستان کے کل زیرکاشت رقبے کا 73فیصد ہیں۔ افغانستان کے جنوب مغربی علاقوں میں پوست کی کاشت میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اگر ہلمند صوبے کی بات کی جائے جو اِس قسم کی کاشتکاری کا مرکز ہے تو وہاں کی کل زیرکاشت اراضی کے پانچویں حصہ پر پوست کاشت ہوتی ہے جبکہ صرف پوست کی کاشتکاری ہی نہیں بلکہ اِس سے افیون و دیگر منشیات کی تیاری کے مراکز بھی اِنہی جنوب مغربی علاقوں یا اُن سے متصل بنائے گئے ہیں۔ پوست کی فصل کاشت کرنے والوں کو منہ مانگی ادائیگیاں امریکی ڈالرز میں کی جاتی ہیں اور ایک ایسے ملک میں جہاں کی معیشت مغربی رحم و کرم پر ہو اور جہاں حکومت کے پاس ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی وسائل نہ ہوں اس طرح کے مسائل پیدا ہوں تو اِس میں تعجب کی بات کیا ہے!؟ اپریل میں جب پوست کی کاشت پر پابندی عائد کرنے کے اعلان کیا گیا تھا تو اُس کے فوراً بعد افیون کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ افیون کی فروخت سے افغان کاشتکاروں کی مجموعی آمدنی گزشتہ سال (دوہزار اکیس) میں 42 کروڑ پچاس لاکھ (425ملین) امریکی ڈالر تھی جو رواں سال (دوہزاربائیس) میں تین گنا بڑھ کر 1.4 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ سال دوہزاراکیس میں پوست کی فصل افغانستان کو زراعت سے ملنے والی کل مالیت کے اُنتیس فیصد کے برابر تھی جس میں اضافہ اِس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ افغان کاشتکار پوست کے حوالے سے اپنے تجربے اور نسل در نسل منتقل ہونے والی مہارت (ہنر) کا بخوبی استعمال کر رہے ہیں تاہم اِس آمدنی میں اضافہ لازمی طور پر کاشتکاروں کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہے کیونکہ مذکورہ عرصے کے دوران افراط زر میں بھی اضافہ ہوا ہے اور افغانستان میں خوراک کی قیمتوں میں اوسطاً 35فیصد جیسا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سال 2022ء کے آغاز میں خشک سالی کے بعد‘ افیون کی پیداوار دوہزار اکیس میں اوسطاً 38.5کلوگرام فی ہیکٹر سے کم ہو کر اس سال ایک اندازے کے مطابق 26.7کلوگرام فی ہیکٹر رہ گئی ہے‘ جس کے نتیجے میں کل 6 ہزار 200 ٹن فصل حاصل ہوئی جو دوہزاراکیس کے مقابلے میں دس فیصد کم ہے۔ اِس قدر پوست کی فصل کو عالمی (برآمدی) معیار کی 350سے 380 ٹن ہیروئن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات ادارے کو تشویش ہے کہ افغانستان میں پوست کی کاشت سے متاثر ہونے والے ممالک میں اِس کے ہمسایہ شامل ہیں جہاں یہ سب سے پہلے پہنچائی جائے گی اور اِس کے بعد عالمی نیٹ ورک اِسے پھیلانے کا کام کرے گا۔ اقوام متحدہ کے پاس معلومات اور واقعات و شواہد کی تفصیلات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ افغانستان سے پوست کی نقل و حمل (افیون کی سمگلنگ) اگست دوہزار اکیس سے بناکسی رکاوٹ کے جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والی افیون کا قریب 80فیصد افغانستان سے حاصل ہوتا ہے۔