اہل پشاور کے ہاں بھی رہن سہن اور کھانے پینے کے اطوار موسموں کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں لیکن جو ایک چیز پشاور کو ممتاز (منفرد) بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں مختلف ممالک کی تہذیب و ثقافت کی نشانیاں آج بھی کسی نہ کسی صورت زندہ ہیں اور ایسی ہی ایک حسین روایت ’صندلی‘ کی ہے جو ’موسم سرما‘ کو بہار کی طرح دلکش بناتی ہے جبکہ خاص نکتہ یہ ہے کہ موبائل فون کے زمانے میں جبکہ ایک کنبے کے افراد بھی آپس میں بات چیت کے لئے ’واٹس ایپ (What'sApp) کا استعمال کرتے ہیں‘ صندلی سب کو ایک کمرے اور ایک لحاف میں جمع کر دیتی ہے اور یوں اہل خانہ کسی اِنٹرنیٹ‘ وائی فائی‘ بلیو ٹوتھ یا موبائل فونز جیسے جذبات سے عاری مواصلاتی وسائل کے ذریعے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو بنا کسی وسیلے دیکھتے اور براہ راست مخاطب ہوتے ہیں‘ جہاں چہرے کے تاثرات‘ لہجے کا ترنم‘ ادب و احترام اور شائستگی کے اتفاق رائے اور اختلاف رائے کا اظہار کیا جاتا ہے اور جن گھروں میں ’صندلی‘ کی روایت آج بھی موجود ہے وہاں گزرتے وقت کی رفتار کم محسوس ہوتی ہے۔’صَندلی‘ نامعلوم ایجاد نہیں بلکہ اِس کا علمی ادبی حوالہ بھی موجود ہے۔ اردو زبان کی پہلی باقاعدہ اور مشہور ترین لغت ”فرہنگ آصفیہ“ کے مطابق ’صندلی‘ فارسی زبان کا لفظ (صفت‘ فعل‘ اسم اور مؤنث) ہے‘ جو ایرانی‘ افغانی‘ پاکستانی اور تاجک فارسی زبانوں میں ایک جیسے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اِس کے کئی مطالب ہیں جیسا کہ صندل نامی درخت کی لکڑی۔ صندل (بادامی یا گندمی) رنگ والی کوئی شے‘ کرسی‘ چوکی‘ چھوٹا تخت اور ایک قسم کی اونچائی ’تپائی (bench)‘ جو مخروطی شکل کی ہو۔ قدیم اُردو ادب میں ’صندلی‘ کا ذکر اُسی کثرت سے ملتا ہے جس قدر یہ استعمال ہوتی تھی جیسا کہ نوطرز مرصع تحسین (1775ء) میں لکھا ہے ”دوکان میں ایک صندلی بچھی ہے اور اوپر گدی مخمل کے ایک کتا لیٹا ہے۔“صندلی کیا ہے؟ بنیادی طور پر ’صَندلی‘ گھر کے سبھی افراد کے زیراستعمال ایک ایسے بڑے حجم (سائز) والے لحاف (رضائی) کو کہا جاتا ہے جسے درمیان میں رکھے کسی ذریعے سے گرم کیا جاتا ہے اور پھر اِس لحاف کے چاروں حصوں میں اہل خانہ گھس کر خود کو سردی کی شدت سے بچاتے ہیں۔ ’صَندلی‘ ایرانی ثقافت کا تحفہ اور سوغات ہے‘ جو ایران و کشمیر سے آئے خاندانوں کے ساتھ پشاور آئی اور کم سے کم پانچ سو سال سے یہاں زیراستعمال ہے لیکن بجلی و گیس متعارف ہونے کے بعد سے روم ہیٹرز اور سنٹرلی ہیٹنگ سسٹمز نے ’صندلی‘ کی جگہ لے لی اور اب اہل پشاور کی ایک ایسی نسل بھی ہے جنہوں نے کبھی بھی ’صندلی‘ نہیں دیکھی یا اِس سے محظوظ ہونے کا منفرد و یادگار تجربہ حاصل نہیں کیا۔ روایتی طور پر صندلی 3 چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے‘ جس کے لئے گھر کا نسبتاً بڑا اور چوکور کمرہ اُور زمین پر روئی سے بھرے ہوئے گدے (میٹریسیز) اور گاؤ تکیوں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ’صندلی‘ اِس قدر بڑی بنائی جائے کہ اُس میں گھر کے سبھی چھ سے آٹھ دس افراد بیک وقت سما سکیں بلکہ صندلی کسی ایک فرد کے لئے‘ (سنگل بیڈ رضائی) بھی بنائی جا سکتی ہے۔ ’صندلی‘ ایک میز (تپائی)‘ اُس پر پڑے ایک چوکور لحاف (رضائی) اور ایک انگیٹھی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ لحاف کو پشاور کے مقامی لوگ ’لیف (Layef)‘ جبکہ اَنگیٹھی کو ہندکووان ’مَنکر (mankar)‘ کہتے ہیں۔ اِس ’مَنکر‘ کی تہہ میں کوئلوں یا لکڑی کی راکھ بچھا کر اِس پر اچھے سے جلے (پخے) ہوئے چند کوئلے رکھ دیئے جاتے ہیں اور پھر اِن کوئلوں کو راکھ سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اِس کے بعد ’صندلی‘ استعمال کرنے سے چند گھنٹے قبل اِسے انگیٹھی رکھ کر گرم ہونے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے اور گھر میں اگر بچے ہوں تو اُنہیں تلقین کی جاتی ہے کہ وہ ’صَندلی‘ سے دور رہیں اور اِس کے نرم لحاف پر اچھل کود سے گریز کریں جو عموماً دیکھنے میں آتا ہے۔ نکتہئ خاص یہ بھی ہے کہ وقت کے ساتھ ’صندلی‘ نے ترقی کی ہے اور آج ’صندلی‘ میں کوئلوں سے گرم ہونے والی انگیٹھی کی بجائے 60 یا 100واٹ کا بجلی بلب استعمال کیا جاتا ہے جو کوئلوں کی طرح یکساں گرمی (گرمائش) پیدا کرتا ہے۔ اِس طرح ’صَندلی‘ کے لئے کوئلے تیار کرنے میں جو گھنٹوں وقت اور محنت درکار ہوتی تھی شہری علاقوں میں ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی‘ اب اُس کی جگہ ”بجلی کے بلب“ نے لے لی ہے۔ مالی لحاظ سے مستحکم خاندانوں میں بجلی کے بلب کی جگہ ’ائر ہیٹرز‘ کا استعمال دیکھا گیا ہے جن میں صَندلی کا درجہئ حرارت خاص حد تک رکھنے کی سہولت بھی ہوتی ہے۔ ’صَندلی‘ ہر لحاظ سے کم خرچ بالا نشین اور تیر بہ ہدف نسخہ ہے کیونکہ ایک تو گیس ناپید ہے دوسرا کوئلے کے دام ناقابل یقین حد تک زیادہ ہیں‘ اِس وجہ سے جن خاندانوں نے ’صندلی‘ سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی وہ بھی دوبارہ ’صندلی‘ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’صَندلی‘ میں بجلی کے عمومی بلب (جو کہ انرجی سیور یا ’ایل اِی ڈی‘ نہ ہوں) کا استعمال ہونے لگا ہے۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ ’صَندلی‘ صرف سردی کی شدت کم محسوس ہونے ہی کے لئے نہیں کیا جاتا بلکہ اِس کے اندر (درمیانی حصے میں انگیٹھی کے گرد) برتن اور قہوے کی چینک بھی رکھ دی جاتی ہے‘ تاکہ بات چیت کے ساتھ ’پشاوری قہوے‘ جیسی روایت کا سلسلہ جاری رہے۔پشاور کے ماضی‘ یہاں کے رہن سہن میں دلچسپی رکھنے والے مقامی و غیرمقامی افراد ہر سال موسم سرما کے آتے ہی سوشل میڈیا پر ’صَندلی‘ کی تصاویر اور اِس روایت کے حوالے سے اپنی یادوں کا اظہار کرتے ہیں اُور یہ بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دن کے اختتام پر کس طرح ’صَندلی‘ کی عدالت میں ایک ہی خاندان کے افراد جمع ہوتے اور اپنے تمام دن کی روداد بیان کرتے کرتے سو جایا کرتے تھے۔ آج ’صَندلی‘ کی جگہ بجلی سے گرم ہونے والی رضائیوں نے لے لی ہے لیکن یقین جانئے کہ جس طرح موسم سرما کے آغاز سے قبل صَندلی کی تیاری کے لئے روئی کے بڑے لحاف کو کھول کر‘ روئی کے خوشوں کو الگ الگ کر کے صاف کیا جاتا ہے جس کے لئے خصوصی مہارت رکھنے والے پیشہ ور جنہیں ’پینجا (Painja)‘ کہا جاتا تھا گھر گھر جاتے تھے اور پھر ’روئی پینجنے‘ کی مخصوص آواز سننے کو کان اور روئی کے ریشوں سے اُٹھنے والے گردوغبار میں دھندلے مناظر دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔ پشاور اور اہل پشاور کے وہ سبھی گھرانے مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے حسب ضرورت ہی سہی لیکن اپنی مادری زبان ’ہندکو‘ اور ’صَندلی‘ کو فراموش نہیں کیا اور آج بھی ’ایک صَندلی‘ میں جمع ’خاندان (ایک اکائی)‘ کی صورت ’ماحول دوست‘ ہونے کا عملاً مظاہرہ (اظہار) کر رہے ہیں۔