پشاور کے زخم 

پشاور ایک وسیع القلب اورعالی ظر ف شہرہے اس نے ہردور میں ہر کسی کے لئے اپنے دروازے وا کئے رکھے جس کی وجہ سے یہ شہر تیز ی سے پھیلتا چلا گیا شہر کے پھیلاؤکے ساتھ شہر کے مسائل بھی بڑھتے چلے گئے بدقسمتی سے ماضی میں ان مسائل کے حل پر خاطر خواہ توجہ مبذول نہ کی جاسکی جس نے پھر حالات کو بدترین نہج پر پہنچا دیا جدید رہائشی سہولیات کی کمی ہویا پھر ٹریفک کابدترین اژدہام،ماحولیاتی آلودگی ہو یاپھر پارکنگ کامسئلہ،معاشی مسائل ہوں یاپھر تجاوزات مافیا کے کرتوت،اس شہر کے جسم پر زخم بڑھتے گئے مگر مرہم رکھنے کی کوشش کبھی نہ کی جاسکی پشاور کا شمار بلاشبہ تیزی سے پھیلتے شہروں میں کیا جا سکتا ہے گزشتہ تین عشروں کے دوران شہر کے پھیلاؤ میں جو اضافہ ہوا ہے وہ یقینا ایک ریکارڈ ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ صوبہ کے دیگر شہروں میں آج بھی سہولیات کا از حد فقدان ہے چنانچہ نہ صرف دیگر شہروں سے نقل مکانی کر کے لوگ یہاں آکر آباد ہوتے رہے ہیں بلکہ خود پشاورشہرکے نواح میں واقع دیہات سے بھی بڑی تعداد میں لوگ وقتاً فوقتاً شہر منتقل ہوتے رہتے ہیں پھر افغان مہاجرین کا ریلہ آیا راتوں رات لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پشاور آن دھمکے اور کیمپوں سے نکل کر اس کے گلی کوچوں میں پھیل گئے رہی سہی کسر آئی ڈی پیز کی آمد نے پوری کر دی چنانچہ شہر تیزی سے پھیلنے لگا بدقسمتی سے اس دوران رہائشی سہولیات کی فراہمی پر سرکار کی طرف سے توجہ مبذول نہ رکھی جاسکی حیات آباد کے بعد سے صوبائی حکومت کوئی کامیاب منصوبہ دینے میں ناکام رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ 50سالہ حیات آباد ٹاؤن شپ بھی آج کئی لحاظ سے نامکمل نظر آتی ہے بالخصوص یہاں کے رہائشی آج بھی عدم تحفظ اور شہری سہولیات کی کمی کی وجہ سے پریشان نظر آتے ہیں حیات آباد کے بعد حکومت نے ریگی ماڈل ٹاؤن کا منصوبہ شروع کیا مگر یہ منصوبہ کھڑا ہونے سے پہلے ہی عملاً دفن ہو کر رہ گیا یوں حکومتی ادارے بڑھتی رہائشی ضروریات پوری کرنے میں کردار ادا نہ کر سکے جس کے جواب میں نجی ہاؤسنگ سکیمیں شروع ہونے لگیں تاہم ان میں سے انگلیوں پر گنی جا سکنے والی سکیمیں ہی ایسی قرار دی جا سکتی ہیں کہ جہاں کسی نہ کسی طور شہری سہولیات کی  فراہمی کو ممکن بنایا گیا ہے وگرنہ ایسی سکیموں کی اکثریت تنگ دامنی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں موجودہ حکومت کے دور میں پشاور
 ویلی نامی منصوبے پر کام شروع ہوچکاہے اب یہ منصوبہ بروقت مکمل ہوجائے  اسی طرح اس شہر کاایک بڑا مسئلہ آج ٹریفک کے اژدہام کا بھی ہے جس نے شہریوں کاجینا حرام کررکھاہے اس صورتحال کے تناظرمیں  آج  ”ٹریفک گردی“ کی اصطلاح کے استعمال پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے ٹریفک گردی ان دنوں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کی بدولت صرف اس شہر پشاور میں ہر روز کہیں نہ کہیں ہزاروں لوگوں کو مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے مٹھی بھر لوگ جمع ہو کر جب چاہیں شہر کی مصروف ترین شاہراہوں کو گھنٹوں بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے پھر گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے اور ہزاروں لوگوں کو ناقابل برداشت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں نے ٹریفک کے مسئلہ کی سنگینی سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی جی ٹی روڈ پر دباؤ کم کرنے کی غرض سے متبادل سڑکوں کی تعمیر پر توجہ مرکوز نہ کئے جانے کی وجہ سے ہی جی ٹی روڈ آج شہریوں کا امتحان لینے پر مجبور ہے‘ دو عشروں میں ہمارے حکمران رنگ روڈ کو ہی مکمل نہ کر سکے پھر ناردرن بائی پاس کا منصوبہ التواء میں رہا جو رنگ روڈ1996ء میں بنی تھی پھر ڈیڑھ عشرہ تک اس کی تعمیر و مرمت ہی نہ ہو سکی سو لے دے کے سارا بوجھ مجبوراً جی ٹی روڈ کو ہی برداشت کرنا پڑرہاہے رہی سہی کسر بے ہنگم اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے پوری ہو رہی ہے ان بے ہنگم اور غیر قانونی تعمیرات کی طرف توجہ کم ہی جاتی ہے شہر بھرمیں بے ہنگم اور غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ نقشہ بنانے اور سرکاری قواعد و ضوابط کا خیال رکھنے کی زحمت گوارہ ہی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے نہ صرف شہر کے حسن پر بدنما داغوں کا اضافہ ہو رہا ہے بلکہ شہری مسائل میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے غیر قانونی تعمیرات نے آج شہر میں دوبڑے مسائل کو جنم دے رکھا ہے جن کی
 وجہ سے آنے والے دنوں میں یہ شہر ناقابل رہائش زون کی شکل اختیار کرسکتا ہے اولاً ان بے ہنگم اورغیر قانونی تعمیرات کی بدولت رہائشی علاقوں کو تیزی سے کمرشل علاقوں میں تبدیل کیا جا رہاہے باہر سے آنے والے دولتمند حضرات کے لئے یہ سنہری موقع ہے کسی گلی محلہ میں مکان خرید کر متعلقہ اہلکاروں کی مٹھی گرم کرکے اسے پلازے میں تبدیل کرنے کیلئے تعمیراتی کام شروع کر دیتے ہیں یوں راتوں رات اس جائیداد کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں جبکہ مقامی رہائشیوں کی پرائیویسی کو داؤ پر لگا دیتے ہیں گلبہار‘ گنج‘ بھانہ ماڑی‘ نوتھیہ‘ گلبرگ‘ سمیت مختلف رہائشی علاقوں میں یہ مکروہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے راتوں رات رہائشی علاقوں کو کمرشل رونز میں تبدیل کیا جا رہا ہے پرانے محلے ختم ہو رہے ہیں ان کی جگہ مارکیٹیں بن رہی ہیں چونکہ کسی قاعدے و قانون کے بغیر ہی یہ پلازے اور مارکیٹیں بن رہی ہیں اس لئے تجاوزات اور پارکنگ کے مسائل جنم لے رہے ہیں اور بات اگر پارکنگ کی کی جائے  تو بلاشبہ بے ہنگم اور غیر قانونی تعمیرات کے نتیجہ میں پارکنگ کے بڑھتے مسائل نے ٹریفک کا پہیہ جام کر کے رکھ دیا ہے شہر کے تمام بڑے بازاروں میں پارکنگ کے بڑھتے مسائل نے شہریوں کی زندگی دوبھر کر دی ہے پارکنگ کے بڑھتے مسئلہ کی بدولت شاہرات تیزی سے سکڑرہی ہیں جس سے ٹریفک چلنے کی بجائے رینگنے پر مجبور ہے دھڑا دھڑ پلازے بن رہے ہیں مگر کسی پلازے میں بھی پارکنگ کے لئے جگہ مختص نہیں کی جا رہی کہنے کو تو انتظامیہ ایکشن لے لیتی ہے مگر جب پلازہ تعمیر ہو جاتا ہے تو جو نام نہاد جگہ پارکنگ کیلئے چھوڑی گئی ہوتی ہے اس میں بھی دکانیں بنا کر کرائے پر چڑھا دی جاتی ہیں اور تو اور خود سرکاری اداروں کی یہی حالت ہے ڈبگری چوک میں اوقاف پلازہ میں پارکنگ کیلئے بنایا جانے والا بیسمنٹ آج ڈاکٹروں کے کلینکس‘ ادویات کی دکانوں اور میڈیکل لیبارٹریوں میں تبدیل ہو چکا ہے جب سرکاری ادارے ہی قاعدہ کی پرواہ نہیں کرینگے تو دوسروں سے کیا توقع رکھی جائے گی پشاور کے یہ زخم تیزی سے رستے ہوئے ناسو ر میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں موجودہ حکومت نے اپنی سی کوشش تو کی ہے مگر ان رستے ہوئے ناسوروں سے بچنے کے لئے بے رحم او رسخت کاروائی کے ساتھ ساتھ ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔