اہل پشاور کے مسائل 

گورنر خیبرپختونخوا ’حاجی غلام علی‘ پشاور کے مسائل اور اہل پشاور کی مشکلات پر فکرمند ہیں یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے جرائم بالخصوص سٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی شرح اور گیس بحران کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کیلئے مؤثر پولیسنگ ضروری ہے‘ جرائم پیشہ عناصر پر نظر رکھنے کیلئے مخبری کے اُس نظام کو فعال‘ مضبوط اور مربوط بنانا چاہئے جو برطانوی راج میں ’پولیس فورس‘ بناتے وقت ترتیب دیا گیا تھا اور جس نظام میں وقتاً فوقتاً اصلاحات کی گئیں‘ افرادی و تکنیکی وسائل میں اِضافہ بھی کیا گیا لیکن خاطرخواہ اہداف (مقاصد) حاصل نہیں ہو رہے اور پولیس فورس نہ صرف عام آدمی (ہم عوام) بلکہ اب تو حکمرانوں کی توقعات پر بھی پوری نہیں اُتر رہی۔ حاجی غلام علی نے 23 نومبر 2022ء کے روز بطور 34ویں گورنر خیبرپختونخوا حلف اُٹھایا تھا ذہن نشین رہے کہ سال 1849ء میں موجودہ خیبرپختونخوا کو الگ کر کے ’شمال مغربی سرحدی صوبہ (این ڈبلیو ایف پی) بنایا گیا تھا جب برطانیہ نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تو اُن سے قبل مغل اور سکھوں نے پولیس کا نظام وضع کر رکھا تھا لیکن ’مؤثر پولیسنگ‘ کے لئے 1861ء کے ’کامن ویلتھ پولیس ایکٹ‘ نامی قانون کی روشنی میں الگ الگ دستے بنائے گئے اور 1889ء میں مذکورہ قانون موجودہ خیبرپختونخوا (فرنٹیئر ٹریٹری) پر لاگو کر دیا گیا اُس وقت پولیس فورس کو ڈپٹی کمشنر اور ضلعی (ڈسٹرکٹ) مجسٹریٹ کے تابع فرمان کیا گیا تھا جسے بعد میں پولیس کے اپنے ہی افسروں کے حوالے کر دیا گیا خلاصہئ کلام یہ ہے کہ پولیس فورس کا قبلہ صرف اُسی صورت درست ہو سکتا ہے جبکہ اِسے ضلعی نظام کے تابع کیا جائے اُور عوام کے منتخب ضلعی (بلدیاتی) نمائندے پولیس فورس کی کارکردگی کے لئے جوابدہ ہوں‘گورنر خیبرپختونخوا سے درخواست ہے کہ وہ افغان مہاجرین کو حاصل نقل و حرکت کی غیرمعمولی آزادی کا بھی نوٹس لیں‘افغان مہاجرین کو خیمہ بستیوں تک محدود کرنے کے احکامات صادر کریں تو غیرمحفوظ سرحد اور اندرون ملک امن و امان کی مخدوش صورتحال پر قابو پانے میں بھی بڑی حد تک قابو پا لیا جائیگا اِسی طرح بطور مہاجر غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین جو بالخصوص خیبرپختونخوا کے شہری و دیہی علاقوں میں روپوش ہیں کی تلاش کر کے اُنہیں افغان سرحد سے متصل خیمہ بستی بنا کر وہاں منتقل کیا جائے۔ سرحدی امور چونکہ وفاقی معاملہ (فیڈرل سبجیکٹ) ہے اور گورنر خیبرپختونخوا اپنی 40 سالہ سیاسی سفر میں اِس مسئلے کی پردہ و درپردہ سنگینی سے بخوبی آگاہ بھی ہیں‘ سنجیدہ حلقوں کو اُمید ہے کہ وہ اپنی گورنری کے دور میں کم سے کم ’افغان مہاجرین کے مسئلے اور اِس کی وجہ سے خیبرپختونخوا سمیت اندرون ملک امن و امان کو لاحق خطرات کم کرنے میں کلیدی‘ تعمیری‘ و تاریخی (یادگار) کردار ادا کریں گے۔گورنر خیبرپختونخوا نے پشاور کے جس دوسرے مسئلے کا ’ازخود نوٹس‘ لیا ہے وہ موسم سرما کی شدت کے ساتھ گیس بحران میں اضافہ اور اِس حوالے سے عوامی حلقوں کی جانب سے مذمت پر مبنی اخباری بیانات کا سلسلہ ہے‘صوبائی دارالحکومت پشاور میں بالخصوص گیس بحران کی وجوہات جاننے کے لئے گورنر خیبرپختونخوا نے پشاور (علاقائی دفتر) اور لاہور (صدر دفتر) میں فیصلہ سازوں سے رابطہ کرنے پرمعلوم ہوا پشاور شہر میں گیس کی ترسیل کا نظام خرابیوں کا مجموعہ
 ہے جسے ازسرنو بچھانے کے لئے ڈیڑھ ارب روپے کا ایک ترقیاتی منصوبہ بنایا گیا تھا تاہم وفاقی حکومت کی تبدیلی اور صوبے کو درپیش معاشی مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ سرد خانے کی نذر کر دیا گیا تھا؛گورنر خیبرپختونخوا کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے سوئی گیس کے حکام نے ڈیڑھ ارب روپے کے مذکورہ منصوبے کو جلد شروع کرنے اور اِسے ’فروری 2023ء‘ کے وسط تک مکمل کرنے کا عہد کیا لیکن گورنر خیبرپختونخوا سے کہا گیا کہ وہ ’مارچ 2023ء‘ کے وسط یعنی مزید ایک ماہ کی تاخیر سے منصوبہ مکمل ہونے کا اعلان کریں مارچ تک موسم سرما ختم ہو جاتا ہے‘ اُس کے بعد گیس فراہمی کا موجودہ ترسیلی نظام بھی اہل پشاور کی جملہ گھریلو و کاروباری ضروریات کے لئے کافی ہوتا ہے۔ حقیقی ضرورت گیس کے ترسیلی نظام کو ازسرنو مرتب کرنا نہیں بلکہ گیس کے خاطرخواہ دباؤ (پریشر) سے فراہمی کی ہے تاکہ یہ شہر کے طول و عرض میں ماضی کی طرح ہر صارف کو میسر ہو سکے۔ اُمید ہے کہ اِس سلسلے میں بھی خاطرخواہ غوروخوض ہوگا اور محکمہئ سوئی گیس کے حکام نے جس مہارت سے گورنر خیبرپختونخوا کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے‘ اُس کا بھی سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے گا۔ اُمید یہ بھی ہے کہ سوئی گیس کے وفاقی محکمے کو ماضی کے حکمرانوں نے جس انداز میں استعمال کیا اُس غلطی کی بھی اصلاح کی جائے گی۔ بنا اہلیت و تجربہ اِن سیاسی ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا بوجھ عوام بطور صارفین اُٹھا رہے ہیں۔ اگر گورنر خیبرپختونخوا ’عوامی شکایات‘ جاننے کے لئے ’موبائل فون ایپ‘ متعارف کرائیں اور ’گورنر ہاؤس سوشل میڈیا سیل‘ بنا کرصرف وفاقی ہی نہیں بلکہ صوبائی محکموں کے بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کی رائے اور ماہرین سے مشورے یا تجاویز طلب کریں تو
 اُنہیں نہ صرف حقیقی زمینی صورتحال سے حقیقی آگاہی ہو گی بلکہ وقتاً فوقتاً اصلاحات کے لئے قیمتی مشورے بھی بلاقیمت دستیاب ہوں گے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے طرزحکمرانی کی اصلاح ممکن ہے۔ اُمید ہے کہ اِس ’خیر ِمحض‘ نادر وسیلے سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔حاجی غلام علی سے چالیس منٹ ملاقات میں پشاور کے جس تیسرے اہم مسئلے کے حوالے سے تبادلہئ خیال ہوا اُس کا تعلق مذہبی و فرقہ ورانہ ہم آہنگی‘ رواداری‘ برداشت کے مظاہرے اور مذہبی فرقوں کے درمیان حسن ِسلوک سے ہے۔ اِس حوالے سے ’امامیہ کونسل برائے اتحاد بین المسلمین‘ کے ایک نمائندہ وفد نے بطور گورنر تعینات ہونے پر ’حاجی غلام علی‘ کو مبارک باد دی اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا‘ وفد کی قیادت علامہ عابد حسین شاکری کر رہے تھے جبکہ دیگر اراکین میں علامہ سیّد جمیل حسن شیرازی‘ سیّد اظہر علی شاہ‘ علامہ سیّد عالم شاہ الحسینی‘ سیّد ابرار جعفری‘ سیّد تعظیم علی شاہ کاظمی‘ سیّد زوار زیدی‘ پروفیسر ملازم حسین‘ شاہد امداد بیگ‘ ڈاکٹر ثاقب بنگش اور گلزار بنگش شامل تھے۔ ذہن نشین رہے کہ 4 مارچ 2022ء کے روز مرکزی شیعہ مسجد کوچہ رسالدار پشاور میں ’نماز جمعۃ المبارک‘ کے اِجتماع پر خودکش حملہ ہوا جس سے موقع پر 56 افراد شہید اور 194 زخمی ہوئے تھے‘عبادت گاہ پر اِس حملے کی مذمت ہر فرقے‘ مسلک اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے کی۔ شہید ہونے والوں میں ایک ہی گھر اور خاندان کے کئی کئی افراد بشمول بچے بھی شامل تھے‘ جس پر پورا ملک سوگوار رہا؛وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے شہدأاورزخمیوں کے لئے الگ الگ امداد و مراعات کا اعلان کیا۔ اصل ضرورت اِس بات کی تھی کہ زخمیوں کا علاج معالجہ مکمل ہونے تک اُنہیں ہسپتالوں میں رکھا جاتا لیکن جذبات میں غلط فیصلے ہوتے چلے گئے اور زخمیوں کو اِس وعدے پر اُن کے گھروں کو منتقل کردیا گیا کہ اُن کا علاج معالجہ مکمل ہونے تک طبی معائنے کی سہولت اور ادویات مفت فراہم کی جاتی رہیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا بہت سے زخمی آج بھی امداد کے منتظر ہیں جبکہ اُن کی مالی حالت اِس قدر توانا نہیں کہ وہ ازخود اپنے علاج معالجے کے اخراجات برداشت کر سکیں۔ اِسی طرح کئی خاندان ایسے بھی ہیں جن کے سربراہ اور جوان بچے بیک وقت خودکش حملے کی نذر ہوئے اور اب وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ’امامیہ کونسل‘ کی جانب سے جب توجہ مبذول کروائی گئی کہ 9 ماہ 4 دن (مجموعی طور پر 279 دن) گزرنے کے باوجود بھی جامع مسجد کوچہئ رسالدار کے کئی شہدأ اور زخمی امداد کے منتظر ہیں تو گورنر خیبرپختونخوا آبدیدہ ہو گئے اُنہوں نے کونسل کو ہدایت کی کہ وہ ایسے شہدأ اور زخمیوں کی فہرست فراہم کریں تاکہ تاخیر اور غلطی کا ازالہ کیا جا سکے؛انتہائی خوشگوار ماحول میں علمائے کرام کی قیادت میں ہوئی اِس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم اُور اختتام دعا سے ہوا۔ گورنر خیبرپختونخوا نے انسانیت و امن دوستی اُور بالخصوص اتحاد بین المسلمین کے فروغ میں ’امامیہ کونسل‘ کی خدمات و کردار کو سراہتے ہوئے اِس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ ’پھولوں کے شہر‘ پشاور کے جملہ مسائل کے حل اور یہاں امن و امان کی بحالی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور پشاور کو معنوی طور پر دوبارہ ’گل و گلزار‘ بنانے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت (ٹال مٹول) نہیں کیا جائے گا۔