صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قوم کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، ملک میں جمہوریت مستحکم ہورہی ہے اور نئی عسکری قیادت نے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ایک ٹی وی انٹرویو میں صدر علوی کا کہنا تھاکہ سیاسی منظر نامے پر ہیجانی کیفیت ہے، آرمی چیف کی تقرری میرٹ پر ہوئی اور معاملہ خوش اسلوبی سے تین سال کے لئے حل ہوگیا، اب مہنگائی پرقابو پانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے‘ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ عمران خان اگر ان سے پوچھتے تو وہ اسمبلی نہ چھوڑنے کا مشورہ دیتے، حکومت اوراپوزیشن کو چاہیے کہ مل کر انتخابات اور انتخابی اصلاحات پر بات کریں۔عمران خان کو آگاہ کیا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری آئے گی تو آپ سے مشاورت کروں گا اور جب سمری آئی توعمران خان سے مشاورت کی اور سپہ سالار کی تقرری اتفاق رائے سے ہوئی ہے جو خوش آئند ہے صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمہوریت مستحکم ہوگئی ہے، مارشل لا نہیں لگ سکتا‘وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈارکے ساتھ صرف معیشت پربات ہوئی ہے وزیر خزانہ کو توانائی کی بچت کے حوالے سے تجویز دی ہے کہ مارکیٹیں جلد بند کرنی چاہئیں جس سے تین سے چارہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگی‘صدر نے کہا کہ نئے آرمی چیف اچھے آدمی ہیں، مجھے سوچ کے اعتبار سے اچھے لگے، سمجھتا ہوں آرمی چیف اداروں کے درمیان عدم اعتماد کو کم کریں گے، میں سمجھتا ہوں سیاستدان بھی عدم اعتماد کو ختم کریں گے۔عارف علوی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف اور مملکت پاکستان کے سربراہ ہیں ان کی طرف سے مثبت اشارے بلاشبہ قابل اطمینان ہیں‘ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے صدر ثالثی کا کردار ادا کررہے ہیں اور اس حوالے سے وہ کافی پرامید بھی ہیں‘ ملک کی سیاسی قیادت کو قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے پرامن ماحول قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ سیاسی انتشار کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوتا ہے‘ ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اس موقع پر سیاسی محاذ آرائی سے ملک میں معاشی ابتری آئے گی جس کا ہمارا ملک اور عوام متحمل نہیں ہوسکتے‘جہاں تک ملک میں مارشل لاء کا تعلق ہے‘اس میں ہمیشہ سیاست دانوں کا کردار رہا ہے۔1958میں فوج کو اقتدار سنبھالنا پڑا تین سال کے اندر چار وزیراعظم تبدیل ہوئے‘ 1977 میں ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد سیاست دانوں نے فوج کو خود سیاسی معاملات میں مداخلت کی دعوت دی‘ 1999میں بھی فوج نے عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لی‘ 2008کے بعد جمہوریت کو چلنے دیاگیا‘2008 ء اور2013میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کردی۔ملک میں سیاسی اور جمہوری استحکام کی امید پیدا ہو گئی تھی لیکن 2018 ء میں قائم ہونے والی حکومت سیاسی انتشار کی وجہ سے اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔ اس پارلیمانی بحران کے کیامضمرات تھے اور کس نے کیاکردار ادا کیا‘اس پر بحث کی ضرورت نہیں‘ ایک جمہوری عمل کے ذریعے سیاسی تبدیلی آئی ہے لیکن اس کے نتیجے میں عوام کو فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہوا ہے‘ سیاسی قیادت کو اپنے ملک اور قوم کا مفاد سب سے مقدم رکھنا ہوگا‘جواس وقت معاشی و سیاسی بحرانوں کا شکار ہے اور مہنگائی نے اس کی کمر توڑ رکھی ہے غریب طبقہ کو ریلیف دینے کی ضرورت بڑھ چکی ہے“ آج سوشل میڈیا نے عوام کی بہت زیادہ سیاسی تربیت کی ہے وہ سیاسی محاذ آرائیوں سے بیزار ہوچکے ہیں اب قومی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور سیاسی استحکام کی طرف قدم بڑھاناہوگا کیونکہ معاشی استحکام، ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی امن و استحکام سے مشروط ہے۔