زراعت: تلخ و شیریں حقائق

 پاکستان میں زرعی ٹیکنالوجی کے اِستعمال کو خاطرخواہ اِہمیت نہ دینے کی وجہ سے صرف ’زرعی پیداوار‘ ہی نہیں بلکہ پورا زرعی شعبہ ’جمود‘ کا شکار ہے لیکن اِس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ رواں ہفتے زرعی یونیورسٹی پشاور میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کم و بیش سبھی مقررین نے تکرار کرتے ہوئے کہا گھما پھرا کر جو ایک بات کہی وہ یہ تھی کہ ”پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔“باوجود اس کے توجہ طلب ہے کہ ایگریکلچرل پیداوار کے جمود کا شکار ہے جس کی ایک وجہ ’زرعی نصاب تعلیم‘ بھی ہے‘ جس میں تحقیق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور یوں پیدا ہونے والے ’تحقیقی خلأ‘ کی بدولت زرعی شعبے میں عصری مہارت و جدت اپنانے سے گریز پایا جاتا ہے۔ زرعی ٹیکنالوجی سے انکار کی وجہ سے پیدا ہوئے چیلنجز اور ضرورت کے کئی روپ ہیں۔ زمین اور پانی کے وسائل کی ترقی۔ فارم مشینری‘ بیج اور زرعی ادویات و کیمیکلز‘ فارم خدمات‘ قرضہ جات اور بیمہ‘ پیداوار کی پروسیسنگ اور اس کی قدر میں اضافہ‘ مارکیٹوں اور زرعی کاروبار کے درمیان فاصلہ کم کرنا‘ دیہات سے شہری علاقوں کو منتقلی کے رجحان کی حوصلہ شکنی‘ زراعت کو منافع بخش بنانے کے اقدامات اور زراعت سے متعلق فیصلہ سازی حقیقی کاشتکاروں اور کسانوں کی شراکت ضروری ہے۔جدید زراعت کے اہداف بنا مشینوں اور زرعی معاشی اِصلاحات ممکن نہیں کیونکہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کے پاس اِس قدر مالی و افرادی وسائل‘ معلومات اور رسائی نہیں ہے کہ وہ خود سے زرعی مشینری کا کلی انتخاب کر سکیں۔ کسانوں سے بات کی جائے تو اکثریت کی لغت میں ٹریکٹر جدید زراعت ہے جبکہ غیر جانبدار ٹیکنالوجی (بیج‘ کھاد‘ جانوروں کی خوراک‘ کیمیکلز وغیرہ) نے فصلوں اور مال مویشیوں کی پیداوار اور اِن کی صحت کو متاثر کیا ہے لیکن ہمارے ہاں زرعی شعبے میں حکومت اور نجی شعبہ خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کر رہا جس کی وجہ سے اُبھرتی ہوئی ایپلی کیشنز کے ساتھ ترقی کی رفتار برقرار نہیں۔ گندم کے لئے بیج کی تبدیلی بھی سست ہے جس کی سالانہ شرح قریب بیس فیصد ہے جبکہ یہ کم از کم پچاس فیصد ہونی چاہئے۔ اِسی طرح کھادوں کا متوازن استعمال نہیں ہو رہا۔ نائٹروجن اہم کھادوں میں سے ایک ہے جس کا استعمال کم ہے اور مٹی میں متعدد غذائی اجزأ کی کمی کی وجہ سے پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ ناکافی معلومات کی وجہ سے ادویات اور کیمیائی مادوں کا استعمال اکثر ضرورت سے زیادہ یا غلط ہو رہا ہے اور اِس سلسلے میں رہنمائی کے وسائل محدود ہیں۔ تعجب ہے کہ پاکستان کو زرعی ملک کہا جاتا ہے لیکن سرکاری سطح پر زرعی ریڈیو اور زرعی ٹیلی ویژن نہیں جبکہ اِس سلسلے میں  دیگر ممالک بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے جہاں صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ زرعی شعبے کے لئے نجی ٹیلی ویژن چینلز بھی پروڈکشن کرتے ہیں اور وہاں قومی معاشی ترقی و زراعت کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھا جاتا۔پاکستان میں پانی کی ترسیل کا نہری نظام 1880ء میں ہوئی زمین کی تقسیم کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا جس کے بعد زمین کی تقسیم ہوئی اور اِس تکنیکی تبدیلی نے آبپاشی کے نظام کو بھی متاثر کیا جو فی الوقت بڑے زمینداروں کے حق میں ہے۔ مثال کے طور پر زمین کے رقبے کے لحاظ سے پانی کی مقدار اور وقت مقرر کیا گیا تھا لیکن مذکورہ عرصے میں چھ سے زیادہ نسلوں میں زمین کی تقسیم ہو چکی ہے جس کے بعد پانی کی تقسیم پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ کسی کو زیادہ تو دوسری طرف کسی کو کم پانی مل رہا ہے اور کشش ثقل پر آبپاشی کی بجائے ریاست پانی کی ضرورت یا کمی پورا کرنے کے لئے مہنگے زیر زمین پانی کی پمپنگ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں کو شمسی توانائی سے چلنے والے زرعی ٹیوب ویلوں اور کسانوں کو شمسی توانائی کی طرف راغب کرنے کے لئے مالی امداد کی صورت سہارا دینا چاہئے۔ اعلی کارکردگی کے حامل آبپاشی کے نظام کی طرف منتقلی کے لئے توانائی‘ پائپوں اور فارم پر پانی ذخیرہ کرنے والے ڈھانچے کی ضرورت ہے‘ جو کسانوں کی اکثریت کی مالی پہنچ سے باہر ہیں۔ نہری آبپاشی کی فراہمی کو طلب پر مبنی پانی کی فراہمی میں تبدیل کرنے کے لئے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ زرعی زمینوں پر آبادی کاری‘ زرعی نقصانات‘ پانی کی تقسیم اور قیمتوں کا تعین کرنے کے طریقہ کار کو دیکھا جانا چاہئے۔ترقی یافتہ دنیا میں‘ حکومتی ادارے مداخلت نہیں کرتے بلکہ زرعی شعبے کا دور دراز سے ’واچ ڈاگ‘ کے طور پر نظارہ کرتے ہیں اور کسانوں کی انجمنیں بنا کر اُن کی مدد کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ تجربہ کیا جو کامیابی سے جاری ہے لیکن مالی وسائل انتہائی محدود پیمانے پر مختص کئے جاتے ہیں۔ کسی بھی بیج کا معیار (کوالٹی ایشورنس) لازمی عنصر ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں انٹرنیشنل سیڈ ٹیسٹنگ ایسوسی ایشن (آئی ایس ٹی اے) دنیا بھر میں زرعی تنظیموں (ایسوسی ایشنز) اور بیج کمپنیوں کی مدد کرتی ہے۔ پاکستان میں صرف ایک ’آئی ایس ٹی اے لیبارٹری‘ ہے جو فیڈرل سیڈ رجسٹریشن اینڈ سرٹیفیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں واقع ہے اور فیصل آباد میں ایک نئی لیبارٹری کے قیام پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا کے فیصلہ ساز کیا کر رہے ہیں‘ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔ پاکستان ’کارٹاجینا پروٹوکول‘ اپنانے میں بھی پیچھے ہے جو عالمی سطح پر زراعت کا معیاری فریم ورک ہے۔ ان تکنیکی فوائد کی صلاحیت کا استعمال ہمیں بہترین عالمی طریقے سیکھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح پاکستان میں صوبائی سطح پر مٹی اور پانی کی جانچ کرنے والی لیبارٹریوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ کھاد بنانے والے بڑے ادارے بھی مٹی اور پانی کی جانچ کی سہولیات پیش کرتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ نائٹروجن کھادوں کے ضرورت سے زیادہ استعمال نے زمین اور ماحول دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ امیج پروسیسنگ کا استعمال کرتے ہوئے سروے کا وقت آگیا ہے۔ مشرومنگ ڈیلرشپس کے ذریعہ تجویز کردہ اور تقسیم کردہ زرعی کیمیکلز پر سختی سے کنٹرول کی ضرورت ہے۔ بیداری اور صلاحیت سازی انضمام کے لئے ایک مسلسل عمل ہے۔ کارپوریٹائزیشن چاہئے جو بینکوں اور قرض دہندگان کے لئے بھی یکساں پُرکشش ہو اور جو کسانوں کے لئے مفید ثابت ہو۔ دیہی کاروباری نظامت کاری اور روزگار پیدا کرنے کے لئے بھی یہ ”انقلابی اقدام“ ثابت ہو سکتا ہے۔