روشن مستقبل؟

خیبرپختونخوا میں تعلیمی اداروں سے استفادہ نہ کرنے والے (آؤٹ آف سکول) بچوں کی تعداد میں اضافے کا رجحان تشویشناک ہے‘ جس کے محرکات میں آبادی اور غربت میں اضافے کو سرفہرست شمار کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی اِداروں سے باہر بچوں میں اکثریت ’بے گھروں‘ کی ہوتی ہے جو اپنے اہل خانہ کو سہارا اور اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے تعلیم کے مقابلے جس مصروفیت کا انتخاب کرتے ہیں اُس میں کچرا جمع کرنا شامل ہے اور خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں کچرا کنڈیوں پر بچوں کی تعداد دیکھ کر اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہمسئلہ کتنا گھمبیر ہے!؟ کوڑا کرکٹ جمع کرنے والے بچوں کی اکثریت کے پاس سڑکوں پر زندگی بسر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا‘ جس کی وجہ سے ان کی ذہنی و جسمانی صحت خراب رہتی ہے وہ نشے کے عادی ہونے یا جرائم پیشہ عناصر یا دہشت گردوں کے ہتھے چڑھنے کے نشانے پر رہتے ہیں اور بعض صورتوں میں اُن کا جنسی استحصال بھی ہوتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جانب سے کئے گئے ایک قومی جائزے (سروے) سے معلوم ہوا تھا کہ سال دوہزار اُنیس کے دوران خیبرپختونخوا میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد قریب اٹھارہ لاکھ ہے جبکہ دوہزار بائیس (تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق) سکولوں سے استفادہ نہ کرنے بچوں کی تعدا بڑھ کر سینتالیس لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اِسی عرصے کے دوران پندرہ سال سے کم عمر بے گھر بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اپنا نہایت ہی قیمتی وقت کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے یا گلی گلی کچرا جمع کرنے کی صورت ضائع کر رہے ہیں۔ یہ بچے قومی ذمہ داری ہیں لیکن جس انداز سے قومی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے اُس کاشاخسانہ یہ ہے کہ ملک و قوم کے دست و بازو (افرادی وسائل) ضائع ہو رہے ہیں!
پشاور شہر کی مختلف کچرا کنڈیوں اور کوڑا کرکٹ کے ٹھکانوں پر ٹھٹھرتی سرد راتوں میں بچوں کو
 گندگی چنتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بچوں کے یہ گروہ جو پہلے دن کے اوقات میں کوڑا کرکٹ جمع کرتے تھے لیکن چونکہ شہر سے گندگی صبح سویرے اٹھائی جاتی ہے اِس لئے کچرا جمع کرنے والوں نے اپنے اوقات کار تبدیل کر لئے ہیں۔ کچرا جمع کرنے والے ان بچوں کی کہانیاں بھی ایک جیسی ہیں کہ اِن کے والد یا بڑے بھائی نشے کے عادی ہو چکے ہیں اور یہ یومیہ دو سے تین سو روپے کمائی کے لئے کچرا جمع کرتے ہیں۔ کچرا جمع کرنے کے دوران اِن بچوں کو کھانے پینے یا اپنے آرام اور سردی کی شدت سے بچنے کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر دن کے اختتام تک انہوں نے کچھ بھی قابل ذکر جمع نہ کیا تو اِس کا مطلب صرف اُنہی کے لئے نہیں بلکہ بعض بچوں کے اہل خانہ کے لئے فاقے کا باعث ہو سکتا ہے۔ گردوپیش میں مزدوری کرنے والے اِن بچوں کو ہمارے معاشرے کا حسن ہونا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے یہ بدنمائی کا باعث ہیں۔ کچرا جمع کرنے والے بچوں پر منشیات و جرائم پیشہ عناصر کی نظریں ہوتی ہیں اور وہ ایسے بچوں سے اظہار ہمدردی کے ذریعے اُنہیں اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ مالی لحاظ سے کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے اِن بچوں کے لئے سماجی تحفظ اُور اُنہیں لاحق خطرات کم کرنے کے لئے صرف حکومت یا حکومتی اداروں ہی کو نہیں بلکہ سماجی کو بھی اپنیذمہ داری کماحقہ پوری کرنی چاہئے۔
خیبرپختونخوا پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار میں بھی ’سٹریٹ چلڈرنز‘ کا نہ صرف ذکر ملتا ہے اور اِن بچوں سے رونما ہونے والے جرائم کو بھی سال دوہزار اکیس کے سالنامے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ مذکورہ پولیس رپورٹ کے مطابق سٹریٹ چلڈرن سب سے زیادہ جنسی استحصال اور تشدد جیسے جرائم کا شکار ہوتے ہیں اور پولیس کو رپورٹ ہونے والے جرائم میں خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ایسے نابالغوں بچوں کے خلاف  جسمانی استحصال کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ضم شدہ اضلاع کے علاوہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع سے (ایک سال کے دوران) مجموعی طور پر تین سو ساٹھ ایسے زیادتی کے واقعات (کیسز) رپورٹ ہوئے جو بچوں کے خلاف ہوئے تھے لیکن یہ وہ اعدادوشمار ہیں جو پولیس کو رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کے خلاف کیسز کی اَصل تعداد اِس
 سے کہیں گنا زیادہ ہے اور پولیس حکام خود بھی اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کے خلاف جرائم کے تمام واقعات پولیس کو رپورٹ نہیں ہوتے ملزمان کو زیادہ سے زیادہ ایک سال یا چھ ماہ قید کی سزا ہوتی ہیں جبکہ جنسی زیادتی کے مقدمات میں حسب قانون سزا کم سے کم دس سے پچیس سال ہے لیکن یہ سزائیں ناکافی شواہد کی وجہ عملاً ممکن نہیں پاتیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اُوز) بھی موجود ہیں جن کے پاس ہر قسم کے اعدادوشمار ہوتے ہیں لیکن  جس قسم کے فعال کردار کی ان سے توقع کی جاتی ہے وہ نظر نہیں آرہا اُنہیں بچوں کے تحفظ کے لئے عملاً زیادہ کچھ  کرنا چاہئے۔ بنیادی ضرورت ایسے سماج کی تشکیل کی ہے جس میں معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے کا سہارا ہو اور بالخصوص سٹریٹ چلڈرنز کو بے آسرا (بوجھ) نہ سمجھا جائے اور انہیں ہر ممکن (معنوی و عملاً) سماجی تحفظ دیا جائے۔