گھاٹے کا سودا

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کے موجودہ دور میں دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے۔دنیا کے کونے کونے سے خبریں، تصاویر اور فوٹیج چند سیکنڈز میں دنیا کے دوسرے کونے تک پہنچانا اب صرف بائیں ہاتھ کا نہیں بلکہ دو انگلیوں کا کھیل بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر دنیا کے مختلف ملکوں اور اقوام کی ایسی روایات، تمدن، ثقافت، من بھاتے کھاجوں اور رسومات سے متعلق انکشافات روز کا معمول بن گئے ہیں۔ گذشتہ روز پاکستان کے ایک فن کار کی طرف سے اپنی نئی نویلی دلہن کو گدھے کا بچہ تحفے میں دینے کی خبر پر تبصرے ابھی جاری تھے کہ پڑوسی ملک بھارت کے ایک پہاڑی علاقے ادی سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں والدین بیٹی کو رخصتی کے وقت چوہوں کا پیکٹ تحفے میں دیتے ہیں جسے اس علاقے میں بہت قیمتی تحفہ مانا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہاں کے بڑے زمیندار اپنی زمینوں پر کام کرنے کے عوض کاشت کاروں کو وہاں سے چوہے پکڑے کی اجازت دیتے ہیں۔فلپائن کے انٹرنیشنل رائس ریسرچ 
انسٹیٹیوٹ کے مطابق کمبوڈیا، لاس، میانمار، فلپائن کے کچھ حصوں اور انڈونیشیا، تھائی لینڈ، گھانا، چین اور ویتنام میں چوہوں کیباقاعدگی سے تجارت ہوتی ہے اور اسے ایک اہم تجارتی جنس کی حیثیت حاصل ہے۔نہ جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر رکھے گا۔چوہوں سے پھیلنے والی بیماریوں کے حوالے سے بھی ایک طویل تاریخ ہے نہ جانے کچھ ممالک میں اس کو کیوں نظر انداز کیا جار ہاہے اور عین ممکن ہے کہ جس کو وہ منافع بخش تجارت سمجھتے ہیں وہ گھاٹے کا سودا ثابت ہو۔کورونا کے حوالے سے بھی یہ کہانیاں عام تھیں کہ یہ چمگادڑ اور اس قبیل کے جانوروں کے انساانی استعمال میں آنے سے ہوا ہے اور اب اگر چوہوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے تو یہ ایک اور وبائی مرض کا باعث بننے والا رویہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے۔ اورنہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت کے مصداق بعد ازاں پھر عالمی سطح پر بحران کاسامنا ہوگا اور طرح طرح کی باتیں پھر اس حوالے سے ہوں گی۔ کوئی ایک ملک پر الزام لگائے گا اور کوئی دوسرے ملک پر۔کورونا وباء سے ابھی جان نہیں چھوٹی کہ اب چوہوں کی تجارت سے تباہی کا ایک اور راستہ کھولنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے یعنی اس میں فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔اس کہانی کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اگر لوگ چوہوں کا شکار کرنے لگیں تو بیچاری بلیوں کا کیا بنے گا۔ اور یہ بھی خدشہ ہے کہ جو لوگ چوہوں تک کو نہیں چھوڑتے 
وہ بلیوں کو کہاں بخشیں گے۔ تاہم ہر کام کا ایک مثبت پہلو بھی ہوتا ہے۔اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر آئندہ چند برسوں یا عشروں میں چوہوں کی تجارت بھی شروع ہوسکتی ہے ہمارے ہاں بھی مختلف اقسام اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے چوہے بڑی تعداد میں موجود ہیں جو گھروں میں اودھم مچاتے پھرتے ہیں اور کچھ عرصے سے بلی کی جسامت کے چوہے سڑکوں اور کلیوں میں بھی دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں حکومت نے انہیں پکڑنے کے لئے انعامی رقم بھی مقرر کردی تھی اور انعام پانے کے لئے لوگ دن رات چوہوں کے پیچھے بھاگتے تھے۔ اگر ان کی بین الاقوامی سطح پر تجارت شروع ہوئی تو ہمیں خاطر خواہ قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔اور ملک کے مختلف شہروں میں چوہوں کی افزائش کے فارم ہاؤسز بھی کھولے جاسکتے ہیں جس سے کافی لوگوں کو روزگار بھی مل سکتا ہے۔کسی بھی چیز کے مثبت پہلو کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ہوسکتا ہے کہ یہی چوہے ہماری ترقی کا ذریعہ بن جائیں۔