وزیر اعظم شہباز شریف نے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کی بحالی پر زور دیا ہے جو بروقت اور انتہائی اہم ضرورت ہے اگرچہ اپنے قیام کے چالیس سال سے زیادہ عرصے میں سارک کو زیادہ متحرک ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور اگر اب ہو جائے تو اِس میں بہتری ہی بہتری ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جب سارک اپنے قیام کے ابتدائی دور سے گزر رہا تھا تو کچھ امید تھی کہ جنوبی ایشیا بتدریج انضمام کے راستے پر چلے گا جس سے دنیا کی تقریبا ًایک چوتھائی آبادی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بھارت کے روئیے کے باعث یہ مفید فورم استعمال میں نہیں آرہا لیکن ایک وسیع تر نظر مختلف تصویر پیش کر رہا ہے۔ علاقائی تعاون ممالک کو اپنی معیشتوں کو مربوط کرنے اور اپنے ثقافتی تعلقات کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے جبکہ خطے میں تعاون کی زبردست صلاحیت موجود ہے اور یہ صلاحیت و مواقع دہائیوں سے ضائع ہو رہے ہیں۔ معروف معاشی تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت‘ جو فی الوقت سارک تنظیم کا رکن ملک نہیں‘ خطے کی ترقی اور ڈوبتی ہوئی علاقائی معیشت کی بہتری کے لئے کئی حوالوں سے ضروری ہے۔ ماضی میں سارک کو خطے میں اتحاد پیدا کرنے میں محدود کامیابی حاصل ہوئی لیکن اتحاد میں شامل سب سے بڑے ملک نے اس تنظیم سے استفادہ کرنے کے مواقع کو ضائع کر دیا ہے، بھارت میں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) حکومت نے کشمیر کے غیر قانونی الحاق کا اعلان کیا ہے اور ایسا کرکے خطے میں امن کی بحالی کے امکانات کو شدید نقصان پہنچایا۔ نریندر مودی 2014ء میں اقتدار میں آئے اور اس کے بعد اُسی سال نیپال میں ہونے والے سارک اجلاس کے بعد سے کوئی سارک سربراہ اجلاس نہیں ہو سکا ہے۔ سارک کی غیرفعالیت سے یہ خطہ بہت سے ترقیاتی مواقعوں سے محروم ہے اور اِس خطے کے رہنے والے لوگ ناخواندگی و غربت کا شکار ہیں۔جبکہ دوسری طرف بھارت نے اپنی نسل پرستانہ اور انتہا پسندانہ پالیسیوں کے ذریعے خطے کے امن کو بھی خطرے میں ڈالاہوا ہے اور یہاں پر ترقی اور خوشحالی کے جن مواقع سے علاقائی تنظیموں کے ذریعے فائدہ اٹھایا جا سکتاتھا اس میں بھی رخنے ڈال رہا ہے۔اگر بھارتی حکومت اپنے ہندوتوا ایجنڈے سے ہٹ کر علاقے کے امن و خوشحالی کے نکتہ نظر سے سوچے تو سارک کے دیگر رکن ممالک پہلے ہی اس مقصد کیلئے عملی اقدامات کیلئے تیار ہیں۔اب بھی وقت ہے اگر وزیراعظم شہباز شریف کی خواہش کے مطابق ’سارک تنظیم‘ امن و ترقیاتی معاونت کی جانب اپنی پیش قدمی کا آغاز کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ خوشحالی کی جانب پیشرفت ہوگی جس کے لئے خطے کے لوگ طویل عرصے سے ترس رہے ہیں۔ سیاست دانوں کو سمجھنا چاہئے کہ کھیلوں‘ ثقافت‘ ذرائع ابلاغ کے نمائندہ وفود کے تبادلے اور عوام سے عوام کے رابطوں کی حوصلہ افزائی کرکے سارک بحالی کا آغاز کیا جا سکتا ہے اور ایسا ہی کیا جانا چاہئے۔ ’سارک تنظیم‘ خطے کے ممالک اور عوام کی حالت زار بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے جسے اِس وقت معاشی مدد کی اشد ضرورت ہے۔یورپی یونین کے طرز پر اگر سارک ممالک آپس میں تجارت کے حوالے سے خصوصی مراعات کا اعلان کریں تو ان ممالک کے باہمی تجارت سے اس قدر معاشی ترقی اور خوشحالی کے امکانات سامنے آسکتے ہیں کہ یہ ممالک یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تجارت کے محتاج نہیں رہیں گے۔