سرحدی تنازعات: صبر ہر بار اختیار کیا

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ’پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملوں کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے‘ جسے سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے لئے یہ صورتحال (مرحلہ) صبر کا پیمانے لبریز ہونے جیسا ہے کیونکہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے زائد جاری اِن بلااشتعال حملوں کی نئی لہر کے نتیجے میں ناقابل تلافی جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔  افغان حکومت بھی اِن کی بار بار مذمت اور ایسے حملے روکنے کی یقین دہانی کے باوجود (پاکستان کی تسلی و تشفی کے مطابق) خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہی۔ پاکستان کا مؤقف سیدھا سادا (واضح) اور افغانستان کے مفاد میں ہے کہ اگر افغان حکمران چاہتے ہیں کہ دنیا اُنہیں تسلیم کرے اور اُنہیں قانونی جواز ملے تو اِس کے لئے ایک ایسی ذمہ دار حکومت کے فرائض ادا کرنا ہوں گے‘ جس سے کسی ملک بالخصوص ہمسایہ ممالک کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ سرحدوں پر امن داخلی امن کا عکاس کا ہوتا ہے اور اگر کوئی حکومت قومی سلامتی (داخلی امن و امان) برقرار نہیں رکھ سکتی اور وہ اپنے ہی جنگجوؤں یا دیگر عسکریت پسندوں کو سرحد پار حملے کرنے سے نہیں روک پا رہی یا ایسا کرنا نہیں چاہتی تو ایسی حکومت اپنے خلاف کسی نئی عسکری مہم جوئی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ دہائیوں سے جاری افغان خانہ جنگی کے بعد‘ طالبان حکمرانوں کو بنا مزاحمت اگر اقتدار مل گیا ہے تو اب یہ اُن کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ پاکستان جیسے محسن و مہربان ملک کے لئے باعث تشویش نہ ہوں۔
پاک افغان چمن سرحد پر چند روز قبل پیش آنے والا افسوسناک واقعہ (حملہ) درحقیقت اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ یا تو کابل کے حکمران اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے سے قاصر ہیں یا پھر طالبان کے اندر موجود کچھ عناصر پاکستان کی حدود کا امتحان لینا چاہتے ہیں اور اگر پاکستان کے نکتہئ نظر سے اِس صورتحال کو دیکھا جائے یعنی طالبان کے اقتدار میں آنے (اگست 2021ء) کے بعد سے پیش آنے والے واقعات کو دیکھا
 جائے تو سرحد پار سے حملے ناقابل یقین اور قابل افسوس ہیں۔ پاک فوج کے شعبہئ تعلقات عامہ کے مطابق ”افغان فورسز کی جانب سے سرحدی قصبے میں بلااشتعال گولہ باری کے نتیجے میں پاکستان کی جانب سے کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔“ اِس جھڑپ کے نتیجے میں سرحدی کراسنگ کو کچھ وقت کے لئے بند کیا گیا۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر وقفے وقفے سے ہونے والے یہ حملے سوچے سمجھے اور غیرضروری دباؤ بنانے کی حکمت عملی کا تسلسل معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ہر مرتبہ ایک جیسے بلااشتعال حملوں کی وجہ سے پاکستان میں جانی نقصان ہوتا ہے اور ہر بار ہی افغان حکومت کی جانب سے مذمت کے چند الفاظ بطور سرکاری ردعمل جاری کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ حملے اِس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ اب تو یہ معمول بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے بھی حالیہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے افغان حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔  کسی بھی طرح کی وجوہات اور صورتوں میں پاکستان کی جانب سے طالبان کو یہ واضح طور پر بتا دینا چاہئے کہ آئندہ کسی بھی قسم کی جارحیت کی صورت بھرپور جواب دیا جائے گا اور پاکستان اپنی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرنے کے لئے ہر طرح سے تیار ہے۔
بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ افغان حکومت بھی آنکھیں دکھا رہی ہے۔ بنیادی طور پر اگرچہ یہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر امن برقرار رکھیں لیکن انہوں نے پہلے بھی اور اب بھی عسکریت پسندوں سمیت متشدد‘ لاقانونیت کے عناصر کو لگام نہیں دی۔ پاکستان افغان عوام کے
 دکھ درد میں مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا کرنا چاہتا اور جس حمایت و ثابت قدمی کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے تو اِسے پاکستان کی کمزوری تصور نہیں ہونا چاہئے۔ پہلی اور آخری ذمہ داری افغان حکومت ہی کی ہے کہ وہ اسمگلروں ’دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو پاکستان میں گھسنے کی کوشش کرنے سے روکیں اور یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ پاک افغان سرحد دو خود مختار ممالک کے درمیان عالمی اور مستقل سرحد ہے۔افغان طالبان کو سمجھنا چاہئے کہ اُنہیں عالمی سطح پر جن مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملوں کی وجہ سے کم نہیں ہوں گی بلکہ مزید بڑھ جائیں گی۔ دانشمندی تو یہ ہے کہ پاکستان کے عالمی و سفارتی اثرورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے اِس مشکل سے نکلا جائے۔ یہ بات مغرب نواز سابق صدر اشرف غنی کے دور میں بھی ہوئی تھی جب بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے کہ غربت زدہ اور مہاجرت کی سختیاں جھیلنے والے افغانوں کے حال پر رحم کیا جائے۔ ماضی کے حکمرانوں کی طرح اِس مرتبہ افغان طالبان کو اس بات کا ادراک کرنے اور پاکستان کے خدشات کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر‘ انہیں سرحد کے اپنے حصے کو محفوظ بنانا ہوگا تاکہ اس بات کی ضمانت دی جاسکے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کا بغض یا عناد نہیں رکھتے اور اگر کسی معاملے پر غلط فہمی موجود ہے تو اُسے بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گرد جنہوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اُن کا قلع قمع کیا جائے تاکہ وہ افغان وسائل اور سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال نہ کر سکیں لیکن اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہئے اور یہی مناسب وقت ہے کہ پاکستان میں مقیم قانونی و غیرقانونی افغان مہاجرین کو سرحدی علاقوں میں خیمہ بستیاں قائم کر کے وہاں منتقل کر دیا جائے۔