محاذ آرائی سے گریز کی ضرورت 

دستور پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے مرکزی کردار، سینئر سیاست دان و قانون دان رضا ربانی نے موجودہ حالات کے حوالے سے جو بھی کہا ہے اس سے قطع نظر یہ کہنا غلط نہیں کہ اس وقت مفاہت اور مذاکرات کے ذریعے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ہر سیاسی پارٹی کا موقف ہے کہ قومی مفاد اس کے لئے سب سے مقدم ہے اور دیکھا جائے تو ایسا ہونا بھی چاہئے تاہم اگر تمام سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد عزیز ہے تو وہ اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد کے لئے آپس میں بیٹھنے سے کیوں کترا رہی ہیں۔ محاذآرائی سے دنیا کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ قومیں آپس میں خونریز جنگوں اور لاکھوں انسانوں کاخون بہانے کے بعد بالاخر مذاکرات کی میز پرآنے پرمجبور ہوتی ہیں، جدید تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، یورپ میں ایک دوسرے کے جانی دشمن ممالک آج کل یورپی یونین کا حصہ ہیں اور ان کے معاشی اوردفاعی مفادات مشترک ہیں۔ افغانستان میں امریکہ نے بالاخر مذاکرات کی میز پربیٹھ کر ہی یہاں سے اپنے نکلنے کی راہ ہموار کی یہ الگ بات ہے کہ یہاں پر امن و امان کی صورتحال اب بھی دگر گوں ہے۔قومی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت اور حزب اختلاف دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے سب کو سیاسی تنازعات کوانا کا مسئلہ بنانے کے بجائے مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ آج ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری قومی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے‘حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے موقف  پر ڈٹی ہوئی ہیں حکومت  کہتی ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ عوام سے تازہ مینڈیٹ لیا جائے تاکہ ملک کو موجودہ معاشی اور سیاسی بحران سے نکالا جاسکے۔ اس مرحلے پر  دونوں فریقین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ باہمی گفت و شنید کا سلسلہ شروع کیاجائے اور مذاکرات میں انتخابات کرانے، ملک کو معاشی اور پارلیمانی بحران سے نکالنے پرمشاورت کی جائے۔ محاذ آرائی ملک اور قوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔عوام کی قوت خرید ہی نہیں بلکہ قوت برداشت بھی ختم ہونے کو ہے۔ اگر مہنگائی کے مارے عوام مجبورہوکرسڑکوں پر نکل آئے تو حالات کوقابو کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ جس کی ذمہ داری تمام سیاست دانوں پر عائد ہوگی۔دیکھا جائے تو اس وقت بین الاقوامی منظر  نامے پر جو صورتحال جنم لے رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ سیاسی استحکام پر توجہ مرکوز کی جائے کیونکہ اسی صورت معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔