اب تو نصف صدی سے بھی ایک سال زیادہ کاعرصہ ہوگیاہے مگر ابھی تک بہت سے سوالات کاجواب ملناباقی ہے یہی وہ دن تھاکہ جب سیاستدانوں اوراس وقت کی اشرافیہ کے ہوس اقتدار کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دولخت ہوگئی تھی ملک کے نوے ہزار فوجی وسول ملازمین جنگی قیدی بنے تھے کس قدر بے حس قوم ہیں ہم کہ آج تک اس سے سانحہ کے ذمہ داروں کاتعین ہی نہیں ہوسکاہے لے دے کے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ رہ جاتی ہے اس کابھی جو حشر کردیاگیاہے وہ سب کے سامنے ہے حالانکہ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ اس رپورٹ کو جامعات میں نصاب کاحصہ بنادیا تھا اس کے بعض حصے ہمارے سکولوں کالجوں میں پڑھائے جاتے مگر آج تو ہماری نئی نسل کو علم ہی نہیں کہ بنگلہ دیش بھی کبھی ہمارا مشرقی بازو ہواکرتاتھا خود بنگلہ دیشی حکومت نے جس طرح سے اس وقت متحد ہ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے بنگالی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کاسلسلہ شروع کررکھا ہے وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے 1946ء کے انتخابات کے بعد جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ ہندوستان نے تقسیم ہونا ہے تو مسلم لیگی رہنما حسین شہید سہروردی نے ایک تحریک شروع کی کہ بنگال تقسیم نہ ہو اور ایک آزاد وخودمختار ریاست کی حیثیت سے سامنے آئے ان کی اس تحریک کو قائداعظم کی حمایت بھی حاصل ہوگئی تھی مگر ہندوتیار نہ ہو سکے کیونکہ متحدہ بنگال میں بہرحال مسلمانوں کی اکثریت ہوتی اور یوں کلکتہ جیسا اہم ترین اقتصادی و علمی مرکز اور بڑی بندرگاہ ایک مسلمان ملک کے پاس ہوتی مگرہندوؤں نے دور اندیش سہروردی کی سکیم ناکام بنا دی بنگال تقسیم ہوگیا اور منصوبے کے مطابق کلکتہ بھارت کو مل گیامشرقی بنگال کاسارا پسماندہ علاقہ پاکستان کو ملا اور تمام ترکوتاہیوں کے باوجود پاکستان نے اس علاقہ کو کماحقہ ترقی دینے کی کوششیں کیں جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں پہلی بار صنعتوں کو فروغ حاصل ہوناشروع ہوا حتیٰ کہ بہت بڑی تعداد میں پنجاب کے تربیت یافتہ ہنر مند مشرقی پاکستان کے کارخانوں میں کام کرنے لگے کلکتہ ہڑپ کرنے کے باوجود بھارت کو تسلی نہ ہوئی اوروہ پہلے دن سے مشرقی پاکستان میں حالات خراب کرنے کے منصوبہ پر عمل پیراہوا اس میں کچھ حصہ ہمارے نااہل حکمرانوں نے بھی ڈالا اگرحسین شہید سہرودی کو کمزور نہ کیا جاتا تو یقینا مشرقی پاکستان میں کسی کو بھی آزادی کانعرہ بلند کرنے کی جرات نہ ہوتی ہمارے حکمرانوں نے بنگالی مسلمانوں کو برابر کاشہری سمجھنے کے بجائے ان کے ساتھ غلاموں والا رویہ اختیار رہی سہی کسر بھارتی پروپیگنڈے نے پوری کردی اور پھر جب 1970میں عام انتخابات ہوئے تو حکمرانوں کے تمام تراندازوں کے برعکس شیخ مجیب الرحمان نے کلین سویپ کرلیا اوراس کے بعد جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اس کانتیجہ سولہ دسمبر کو سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں سامنے آیا مگر افسوس کہ اس سانحہ کے اصل ذمہ دار سامنے نہ لائے جاسکے جو ایک اور مجرمانہ فعل اوربدترین قومی غفلت کاسنگین مظاہرہ ہے ابھی تک یہ بحث جاری ہے کہ یہ فوجی شکست تھی یا سیاسی،اس شکست کا سب سے بڑا ذمہ دار کون ہے اکاون برس بعد بھی ہم اگران دو سوالات کاجوابات تلاش نہیں کرسکے ہیں تو پھر ہمیں اپنے حالات پر ضرور نظر رکھنی چاہئے کہیں نہ کہیں کوئی اور بڑا سانحہ شاید ہمارا منتظر ہے اور اس سے بچنے کی واحد راہ کی یہی کہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کاتعین کرکے انہیں تاریخ کے حوالہ کیا جائے کیونکہ تاریخ ہی بے رحم احتساب کیا کرتی ہے۔