پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ آج لاہور میں سیاسی اہم اعلانا ت کرنے والے ہیں یہ پہلی بار ہواہے کہ پی ٹی آئی کوئی اہم فیصلہ اتنی طویل اور جامع مشاورت کے بعد کرنے جارہی ہے قبل ازیں پی ٹی آئی کی سیاست پرہمیں جلد بازی کی چھاپ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے جس کی بڑی ذمہ داری یقینا پارٹی چیئر مین عمران خان کی سیماب صفت طبعیت پر عائد ہوتی ہے وہ اکثر معاملات میں فیصلہ کرنے میں جلد بازی کرتے رہے ہیں عبدالحمید عدم نے شاید ایسے ہی لوگوں کو خلوص کے بندے قراردیاتھا ان کے نزدیک مخلص بندوں کی ایک ہی خامی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد باز ہوا کرتے ہیں عمران خان اگر کسی اور کیلئے نہیں تو کم از کم اپنی جماعت اور کارکنوں کیلئے تو یقینی طورپر مخلص ہی ہیں بہرحال رفتہ رفتہ ہمیں پی ٹی آئی کی سیاست اور خودعمران خان کے مزاج میں ٹھہراؤ واضح طورپرمحسو س ہونے لگاہے‘ چنانچہ جب عمران خان نے 26نومبر کو راولپنڈی میں لانگ مارچ کے فائنل راؤنڈ کااعلان کیا تو خدشہ تھا کہ وہ طویل دھرنا دیں گے تاہم اس روزانہوں نے معاملات کشیدگی کی طرف سے لے جانے کے بجائے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کااعلان کرکے سب کو حیران اور اپنے بعض ساتھیوں کو کسی حد تک پریشان کرکے رکھ دیا تاہم اس سے بھی زیادہ حیر ت انگیز امر یہ رہاکہ اس بار انہوں نے اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے پر جلد بازی کے بجائے طویل مشاورتی عمل کاآغاز کیا اور اب کم وبیش تین ہفتے کے بعد وہ لاہور میں آج اہم اعلانات کرنیوالے ہیں یہ امر بھی باعث دلچسپی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے لانگ مارچ کے حتمی مرحلہ کی طرح اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ بھی خفیہ رکھی گئی ہے پارٹی کے مرکزی قائدین بھی تاریخ سے بے خبر ہیں پارٹی کے سینئر وائس چیئر مین شاہ محمودقریشی نے خودجمعرات کو بتایا کہ اعلا ن عمران خان خود کریں گے یہ تاریخ 17 بھی ہوسکتی ہے اور 23 بھی ہوسکتی ہے گویا ان کو بھی اصل تاریخ کے حوالہ سے کوئی علم نہیں اسی طرح پارٹی کے ایک اور مرکزی رہنما فواد چوہدر ی بھی باربار اسمبلیوں کی تحلیل کاذکر تو کرتے رہے ہیں مگر تاریخ بتانے سے وہ بھی قاصر ہی رہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ عمران خان بعض
معاملات میں اب پارٹی کی مرکزی قیادت پر بھی اعتماد کرنے کیلئے تیا رنہیں کیونکہ اس سے قبل انہیں یہ اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ پارٹی کے بعض رہنما خفیہ طورپر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں میں مصروف ہیں تبھی تو چندماہ قبل انہوں نے واضح کردیاتھاکہ اب کوئی بھی رابطہ صرف ان کے ذریعہ ہوگا گویا انہوں نے مقتدرحلقوں کو پیغام دے دیاکہ رات کی تاریکیوں میں ان سے ملنے والوں کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں چنانچہ اب اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملات بھی انہوں نے انتہائی خفیہ رکھے ہوئے ہیں اوردیکھنااب یہ ہے کہ وہ لاہور میں کو ئی بڑا سیاسی دھماکہ کرتے ہیں یاصرف کو ئی پٹاخہ ہی پھوڑ پاتے ہیں‘بتایاجاتاہے کہ قانونی ٹیم نے بھی انہیں واضح طورپر بتادیاہے کہ گورنر کسی بھی صورت اسمبلی کی تحلیل کو رو ک نہیں سکتے البتہ اپوزیشن کے پا س عدالت جانے کاراستہ بہر حال موجودہے اور وہ یقینا یہ راستہ اختیار بھی کرے گی اس سے قبل جب عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرائی تھی تو وہ عدالت نے ہی بحال کرادی تھی اب بھی اپوزیشن کو یہ امید ہے کہ عدالت اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے کو مستر د کردے گی جہاں تک پی ڈی ایم اور اتحاد ی جماعتوں کا تعلق ہے تو اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملہ پر وہ بھی متعدد باریوٹرن لے چکی ہیں پہلے وہ کہاکرتی تھیں کہ ہمت ہے تو عمران خان پنجاب اور پختونخوااسمبلیاں تحلیل کراکر دکھائیں ہم اگلے روز ہی قومی اسمبلی توڑ کر الیکشن کی طرف چلے جائیں گے پھر جب پی ٹی آئی نے اسمبلیوں کی تحلیل کااعلان کیا تو یو ٹرن لیتے ہوئے یہ جماعتیں اسمبلیاں بچانے کے لئے ہر حربہ اختیار کرنے کے اعلانات کرنے لگیں مگر اب چند دنوں سے وہ ایک بارپھر پی ٹی آئی کو اشتعال دلاتی دکھائی دیتی ہیں پی ڈی ایم
اوراتحادی جماعتوں کاکہناہے کہ عمران خان میں ا سمبلیاں تحلیل کرنے کی جرات ہی نہیں محض تاریخ پرتاریخ دیئے جارہے ہیں ان کے یوٹرنز کے حوالہ سے سیاسی مبصرین حیرت کااظہار کررہے ہیں‘ اسمبلیوں کی تحلیل اور قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملہ پر پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی حکمت عملی واقعی تضادات کامجموعہ بن کررہ گئی ہے جب پی ٹی آئی نے استعفے دیئے تو نئی حکومت نے آتے ہی تمام استعفے نامنظور کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ جب تک اراکین خود اسپیکر کے سامنے حاضر ہوکر استعفوں کی تصدیق نہیں کرتے یہ استعفے منظور نہیں کئے جائیں گے جس پر پی ٹی آئی نے عدالت سے بھی رجوع کیا مگر عدالت نے اسے سپیکر کا اختیار قراردیتے ہوئے مداخلت سے انکار کردیا مگر پھر اچانک سپیکر کی طرف سے گیارہ استعفے منظور کرنے کااعلان کردیاگیا اب پنجاب اور خیبرپختونخوااسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے استعفوں کے معاملہ پر جلد سپیکر کے نام خط میں ان سے وقت مانگا جائے گا وفاقی حکومت کی اب بھی یہ کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح معاملہ کو التواء میں رکھاجاسکے بظاہرتو حکومت اسمبلیوں کی تحلیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے استعفوں کے معاملہ کو سنجیدہ نہیں لے رہی مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر دو اسمبلیاں تحلیل ہوجاتی ہیں اور ساتھ ہی پی ٹی آئی اراکین قومی اسمبلی کے استعفے بھی منظورہوجاتے ہیں تو حکومت کیلئے پریشانیوں کانیا باب کھل سکتاہے یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ ضمنی الیکشن کرادئیے جائیں گے مگر حکومتی جماعتوں کوخاص طورپر ن لیگ اور جے یو آئی کو اس امر کااحساس ہے کہ دو اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی سو سے زائدنشستوں پر الیکشن کرانے کی صورت میں ان کی توجہ بٹ جائے گی نہ تو حکومتی معاملا ت پر توجہ دی جاسکے گی نہ ہی الیکشن مہم پر پور ا زور صرف کیاجاسکے گا اس لئے پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتیں معاملہ کو زیادہ سے زیادہ عرصہ ٹالنے کیلئے فکر مند دکھائی دیتی ہیں تاہم اس کادارومدار آج عمران خان کے اعلان پر ہے کہ وہ سیاسی دھماکہ کرپاتے ہیں یا نہیں۔