ترقیاتی اہداف: اِیشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے خیبرپختونخوا کے 5 شہروں (ایبٹ آباد‘ کوہاٹ‘ مردان‘ مینگورہ اور پشاور) کا انتخاب قابل ذکر ہے جس کے تحت پہلا ہدف یہ ہے کہ منتخب پانچ شہروں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ کوڑا کرکٹ کی تلفی‘ صفائی ستھرائی کی صورتحال میں بہتری‘ نکاسیئ آب کی توسیع و اصلاح اور شجرکاری و دیگر اقدامات سے ہریالی میں اضافہ کیا جائے گا ”خیبرپختونخوا سٹیز ایمپرومنٹ پراجیکٹ (Project 51036-22)“ نامی منصوبے کی تفصیلات اور اِس پر عمل درآمد کے بارے میں بینک کی ویب سائٹ (adb.org) سے معلومات مفت حاصل کی جا سکتی ہیں اِس منصوبے کیلئے صرف شہری علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے جسکا دوسرا ہدف یہ ہے کہ صوبائی حکومت اور ضلعی (بلدیاتی) حکومتوں کی کارکردگی اور اِن کی خدمات کے معیار کو بہتر بنایا جائے منصوبے کے تحت شہری سہولیات فراہم کرنیوالے اداروں یا میونسپل کمپنیوں (جیسا کہ واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن پشاور) کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ادارہ جاتی مدد بھی شامل ہے‘ منصوبے کا ’تیسرا ہدف‘ اداروں کے انتظامی امور کی اصلاح‘ اِنہیں بااختیار بنانے اور اِنکی کارکردگی و صلاحیت میں اضافہ ہے تاکہ حسب آبادی عوام دوست میونسپل خدمات فراہم کی جا سکیں اِس کوشش کا ایک مقصد اُن شکوک و شبہات کو بھی ختم کرنا ہے جو میونسپل خدمات فراہم کرنیوالے اداروں سے متعلق عوام کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں کہ ”میونسپل ادارے تو کام ہی نہیں کرتے“ حالانکہ جن شہروں کا انتخاب کیا گیا ہے وہاں ایک سے زیادہ میونسپل خدمات فراہم کرنیوالے ادارے فعال ہیں۔ مذکورہ حکمت عملی اگر مکمل ہو جاتی ہے تو اِس سے اندازہ ہے کہ ’خیبرپختونخوا‘ کے پانچ شہروں میں 35 لاکھ (3.5ملین) شہری مستفید ہونگے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی نیک نیتی اور خیرخواہی پر مبنی امداد و تکنیکی معاونت خاص اہمیت کے حامل ہیں‘ جو دراصل حکومت کی ترقیاتی ترجیحات کی حمایت کا آئینہ دار ہے‘ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخوا کے جن ترقیاتی منصوبوں اور قوانین سازی و قواعد کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے اُن میں سرفہرست خیبرپختونخوا واٹر ایکٹ 2020ء‘ دوسرا ترمیم شدہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء‘ تیسرا ’خیبرپختونخوا‘ کیلئے ’انٹی گریٹڈ واٹر ریسورس مینجمنٹ اسٹریٹجی‘ اور چوتھا قومی سطح پر مربوط طے شدہ شراکت داری (NDCs) شامل ہیں لیکن صرف نیک نیتی‘ خلوص اور مالی و تکنیکی امداد دینا ہی کافی نہیں جب تک کہ زمینی حقائق بالخصوص آبادی سے متعلق درست اعدادوشمار پیش نظر نہ رکھے جائیں ’اِیشین ڈویلپمنٹ بینک‘ کو جو اعدادوشمار فراہم کئے گئے وہ درست نہیں! پاکستان میں آخری مردم شماری اپریل 2017ء میں کی گئی‘جسکے اعدادوشمار سے متعلق چاروں صوبوں میں سیاسی و سماجی حلقوں نے تحفظات کا اظہار کر رکھا ہے۔ ہر دس سال بعد قومی مردم شماری کا انعقاد لازماً ہونا چاہئے لیکن اِس مشق کا باقاعدگی سے انعقاد نہیں کیا جا سکا۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد پہلی مردم شماری 1951ء میں وزیر خزانہ سر ملک غلام کی سربراہی میں ہوئی‘ جو وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ماتحت خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ 1951ء کے بعد سے اب تک چھ مرتبہ مردم شماری ہو چکی ہیں جو بالترتیب اُنیس سو اکسٹھ‘ اُنیس سو بہتر‘ اُنیس سو اکیاسی‘ اُنیس سو اٹھاسی اور سال دوہزارسترہ میں ہوئی ہیں۔ آخری مردم شماری کے مطابق ضلع پشاور کی کل آبادی 42 لاکھ 69 ہزار 72 نفوس پر مشتمل ہے جبکہ پشاور کی آبادی بڑھنے کا تناسب قریب 4 (3.99) فیصد ہے اِسی طرح دوہزارسترہ کی مردم شماری کے مطابق ضلع ایبٹ آباد کی آبادی 13 لاکھ سے زیادہ اور آبادی کی سالانہ شرح نمو 2.20 فیصد‘ ضلع کوہاٹ کی آبادی 9 لاکھ سے زیادہ اور آبادی کی سالانہ شرح نمو 3.03فیصد‘ ضلع مردان کی آبادی 23 لاکھ سے زیادہ اور آبادی کی سالانہ شرح نمو 2.58 فیصد اور مینگورہ شہر کی آبادی 3 لاکھ سے زیادہ اور آبادی کی سالانہ شرح نمو 3.03فیصد ہے۔ اِن اعدادوشمار کو اگر نصف کر کے بھی شمار کیا جائے تو مذکورہ پانچ شہروں کی آبادی اُس ’اندازے‘ سے زیادہ بنتی ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ’ایشیائی ترقیاتی بینک‘ مالی و تکنیکی امداد فراہم کرے گا اور یہ بات ہرگز ہرگز تعجب خیز نہیں ہوگی کہ ’اِنٹی گریٹڈ واٹر ریسورس مینجمنٹ اسٹریٹجی‘ کے اختتام پر بھی ”شہری مسائل“ جوں کے توں برقرار رہیں۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک ’انٹی گریٹڈ واٹر ریسورس مینجمنٹ اسٹریٹجی‘ کیلئے مجموعی طور پر 58 کروڑ (580 ملین) ڈالر قرض جبکہ 50 لاکھ (5 ملین) ڈالر بطور امداد دے رہا ہے۔ وہ سبھی امور جو اپنے وسائل سے بآسانی حل کئے جا سکتے تھے اُنہیں 50 لاکھ ڈالر امداد کی لالچ میں 58 کروڑ قرض کی صورت وصول و قبول کر لیا گیا اور جب یہ بنیادی بات ہی معلوم نہیں کہ کسی شہر کی مستقل و غیر مستقل (مجموعی طور پر کل) آبادی کتنی ہے تو وہاں کے رہنے والوں کی بنیادی ضروریات و میونسپل سہولیات کا خاطرخواہ انتظام و انصرام کس طرح ممکن ہو پائیگا؟زمینی حقائق: انٹی گریٹڈ واٹر ریسورس مینجمنٹ اسٹریٹجی کے تحت پشاور میں پینے کے پانی کا ترسیلی نظام ازسرنو مرتب کیا جائے گا جو مبینہ طور پر 155 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے (لیکن یہ اعدادوشمار بھی درست نہیں ہیں)۔ اِسکے علاؤہ پشاور کو پانی کی فراہمی کے نئے ذرائع تلاش جیسے منصوبوں پر قریب 3 ارب (2.8بلین) ڈالر خرچ ہوں گے۔ یادش بخیر ’فروری 2013ء‘ میں خیبرپختونخوا حکومت نے صوبائی دارالحکومت پشاور میں صاف پانی کی فراہمی کا ایک منصوبہ بنام ’گریٹر واٹر سپلائی اسکیم‘ سال 2013ء سے سال 2040ء تک کی ضروریات کے لئے وضع کیا تھا۔ 9 برس قبل‘ اِس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 50 ارب روپے تھا تاہم یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا اُور اگر مذکورہ عرصے (9 برس) کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو دیکھا جائے تو فی الوقت پشاور میں ”پینے کے صاف پانی کے توسیعی منصوبے“ پر لاگت کا تخمینہ کسی بھی طرح 100 ارب روپے سے کم نہیں! ذہن نشین رہے کہ پشاور کو 2013ء میں 22 ہزار 500 گیلن فی گھنٹہ پانی کی ضرورت تھی اور اب اِس ضرورت میں بھی کم از کم پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔